کمزوری کو طاقت میں بدلنے والی گلگت کی سفیرا

کمزوری کو طاقت میں بدلنے والی گلگت کی سفیرا—فوٹو راوی

’میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ اگر انسان خود تبدیل نہیں ہونا چاہے گا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت، کوئی تقدیر ، کوئی قسمت یا کوئی بھی چیز  اسے تبدیل نہیں کرسکتی تو اندر سے جو انسان کی طاقت ہے اس کو نکالنا چاہیے یہی میں نے کیا اور اب میں اپنے جیسے دوسرے افراد  کو مضبوط بنانے کیلئے کام کر رہی ہوں'

یہ الفاظ گلگت کی 24 سالہ سفیرا بی بی کے ہیں جو بچپن سے لا علاج بیماری ریٹینائیٹس پگمنٹوسا (retinitis pigmentosa) یا آر پی کی شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی بینائی صرف 5 فیصد ہے یعنی 95 فیصد وہ ویژن سے محروم ہیں۔

اس کے باوجود سفیرا پاکستان کی وہ پہلی بلائنڈ اسٹوڈنٹ ہیں جنہوں نے 2012 میں امریکا کے یوتھ اینڈ ایکسچینچ اسٹڈی پروگرام میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

گلگت سے تعلق رکھنے والی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن سفیرا اپنے اہل خانہ کے ساتھ 10 سال کی عمر میں کراچی منتقل ہوئیں تاکہ ان کا کراچی جیسے بڑے شہر میں علاج ممکن ہو لیکن بدقسمتی سے ان کا علاج بڑے شہر میں بھی نہ ہوسکا اور ان کی بیماری لاعلاج قرار پائی۔

ویسے تو پوری دنیا میں ستمبر کا آخری ہفتہ ورلڈ ریٹینا ویک کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن صرف 30 ستمبر آر پی سے آگاہی کا دن ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان سمیت 40 ممالک میں آر پی سے آگاہی کا دن منایا جارہا ہے جس کا اہم مقصد اس سے متعلق معلومات فراہم کرنا اور متاثرہ افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔

Retinitis Pigmentosa آر پی کیا ہے؟

ریٹینائیٹس پگمنٹوسا آر پی غیر معمولی جینیاتی امراض کا گروہ ہے جو آنکھ کے پردے کے خلیات کو خراب یا انہیں نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے کیونکہ آنکھ کا پردہ باریک ریشہ ہوتا ہے۔ 

آر پی کی نشانی یہ ہے کہ سب سے پہلے رات کے اوقات میں بینائی کم ہونے لگتی ہے پھر آہستہ آہستہ ایک اسٹیج ایسی بھی آتی ہے کہ بینائی مکمل طور پر ختم ہوجاتی۔ اس کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے خاندان میں پہلے سے ہی کوئی اس سے متاثر ہو۔

لیکن سفیرا کے کیس میں ایسا نہیں تھا ان کے خاندان میں وہ واحد ہیں جو آر پی کا شکار بنیں لیکن سفیرا بینائی سے محروم ہونے کے باوجود زندگی جینے کا فن جانتی ہیں اور دوسروں کو بھی سیکھانے میں کوشاں ہیں۔ 

ہر عام بچے کی طرح سفیرا کو بھی اسکول جانے کی خواہش تھی لیکن ڈاکٹرز کے مطابق آر پی کا علاج پاکستان میں تو کیا پوری دنیا میں نہیں تاہم اس کا شکار ہونے کے باوجود بھی انہوں نے ہار نہیں مانی اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی۔

سفیرا نے 11 برس کی عمر میں کراچی کے آئی ڈی اے اسکول فار بلائینڈ اینڈ ڈیف میں داخلہ لیا اور 17 برس کی عمر میں میٹرک کیا۔ بعدازاں 2012 میں پاکستان کی پہلی بلائنڈ اسٹوڈنٹ کے طور پر امریکا کے یوتھ اینڈ ایکسچینچ اسٹڈی پروگرام کا حصہ بنیں اور پھر واپس آکر سینٹ پیٹرک کالج سے انٹر کیا۔

انٹر کے بعد سفیرا نے کمیونیکیشن کے مضمون کا انتخاب کیا جس کے لیے انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں داخلہ لیا اور اب ان کا بی ایس میں آخری سال ہے۔

فوٹو: راوی

امریکا کے یوتھ اینڈ ایکسچینچ اسٹڈی پروگرام کے حوالے سے سفیرا کو ان کے ماموں حیدر یوسف نے آگاہ کیا جو ایکسس پروگرام میں ٹیچر تھے۔

سفیرا کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا جانے کا موقع ملے گا لیکن ان کے ماموں نے خوب حوصلہ افزائی کی۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں انٹرویو سے قبل خوفزدہ تھیں شاید میں وہ واحد اسٹوڈنٹ تھیں جسے اسی وقت پتا چل گیا کہ وہ ایکسچینج پروگرام کیے لیے سلیکشن ہوگئی ہے۔

سفیرا کہتی ہیں کہ امریکی پروگرام میں پاکستان کی پہلی بلائنڈ اسٹوڈنٹ کے طور پر نمائندگی کرنے پر انتہائی فخر محسوس کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں امریکا میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ امریکا ہر لحاظ سے ان کے لیے ایک مختلف ملک ثابت ہوا۔ وہاں انہیں انگریزی زبان کی مشکل پیش آئی ساتھ ہی وہاں کا ماحول سمجھنے میں بھی انہیں وقت لگا۔

فوٹو: راوی

اس عرصے میں انہوں نے تعلیم کے ساتھ خود اعتمادی اور حوصلوں کو ہمیشہ بلند رکھنا خوب سیکھا اور پاکستان لوٹتے ہوئے خود سے یہ وعدہ کیا کہ جو کچھ بھی سیکھا ہے اس کو یہاں آکر سیکھائیں گی۔

سفیرا شعبہ ابلاغ عامہ سے اس وقت بی ایس پروگرام مکمل کر رہی ہیں اور آخری سمسٹر کا امتحان دیں گی لیکن گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے غیر متوقع طور پر ان مشکلات کا سامنا کیا جوانہیں کمزور کرسکتی تھیں۔

سفیرا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے امتحانات "Jaws" سافٹ فیئر کے ذریعے خود دے سکتی تھیں لیکن جامعہ میں انہیں خود سے امتحان دینے سے روک دیا گیا۔

فوٹو: راوی

بعدازاں کوشش جاری رکھتے ہوئے سفیرا نے ایک درخواست لکھی جس کو یونیورسٹی کے کنٹرول ایگزامینیشن سینٹر میں جمع کرایا گیا۔ 

انہیں یونیورسٹی کے کلینک بھیجا جہاں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ بینائی سے محروم ہیں۔

ایسے میں سفیرا نے ہار نہیں مانی اور اپنی خودمختاری کے حصول کے لیے بخوبی دفاع کیا تاہم سفیرا کو اپنی بات منوانے میں تین برس لگے لیکن آج وہ اپنے امتحانات خود سے دیتی ہیں اور اب وہ کوشاں ہیں کہ ان کے جیسے باقی بچے بھی خود سے اپنا امتحان دیں سکیں جس کے لیے وہ پرامید ہیں۔

فوٹو: راوی

سفیرا مختلف ورک شاپ اور پروجیکٹس کرتی رہتی ہیں اور ان بچوں کے لیے کام کرتی ہیں جو ان کی طرح آر پی کے شکار ہیں۔

سفیرا سے 2017 میں فلاحی ادارے بینائی فاونڈیشن نے رابطہ کیا اور انہیں گرومنگ ٹیچر کی پیشکش کی جس پر انہوں ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر ہاں کردی۔

اب سفیرا آر پی سے متاثرہ افراد کو مختلف طریقوں سے پڑھاتی ہیں،ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں انہیں سیکھاتی ہیں کہ خود سے تبدیلی کیسے لاتے ہیں تاکہ وہ تجربات کریں اور زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں لیکن ہمت نہیں ہاریں۔

سفیرا کا ماننا ہے کہ انسان کو اندر سے مضبوط ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ وہ کہتی ہیں کہ آر پی کے شکار بچوں کے لیے فیملی سپورٹ بے حد ضروری ہے ان کے لیے فیملی کا ساتھ کھڑا ہونا وقت بر وقت رہنمائی کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے، ایسے بچوں کو ہر لمحہ اعتماد دلانا چاہیے اور خود بھی ان پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ بھی عام افراد کی طرح کچھ بن سکتے ہیں۔

انٹرنیشنل کمیٹی ریڈ کراس 'آئی سی آر سی' ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر کاشف کہتے ہیں کہ آر پی کے علاج کے لیے بین الاقوامی ممالک میں تحقیق کی جاری ہے مگر اسے بڑھنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ جیسے ہی کسی بچے کا بینائی میں کمزوری کی شکایت ہو فوری طور پر ڈاکٹر کی ہدایت پر چشمے کا استعمال کروانا چاہیے۔

فوٹو: راوی

ایسے بچوں کو مختلف خصوصی سرگرمیوں مثلاً میوزیکل اور فزیکل ایکٹویٹیز اور اسپیشل سائنز کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرے میں خودمختار بن سکیں۔

ڈاکٹر کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی بہت کم ہے اور حکومتی سطح پربھی ان بچوں کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ان کے علاج کے ساتھ ان کی تعلیم بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

مزید خبریں :