Time 14 اکتوبر ، 2019
پاکستان

کچرا سیاست

فائل فوٹو

ہم نے بھی کیا قسمت پائی، دائروں میں گھومتی، کنویں کی مینڈک کچر اسیاست، جیب کترے، کن ٹٹے، دیہاڑی باز، ڈنگ ٹپاؤ، مک مکاؤ قسم کے سیاسی پردھان، کوہلو کا بیل، مسلسل سفر میں انگریزی والاsuffer ہوچکی جی حضور قوم بلکہ قوم کیا ہجوم، 72سال ہوگئے۔

ڈرائیور بدل بدل تھک گئے، گاڑی مسلسل ریورس گیئر میں، جوآیا، پچھلے سے زیادہ نالائق، پہلے والے سے بڑا جیب تراش، 5فیصد کے معدے کھا کھا جواب دے گئے، 95فیصد کے معدے بھوکےرہ رہ جواب دے چکے، انیس، بیس کے فرق سے کچرا سیاست کا ماحول ایک سا، ایک سا منظر، ایک سے چہرے، ایک سی باتیں، باقی چھوڑیں، آزادی مارچ، دھرنوں کو لے لیں، آج وہی فلم چل رہی جو 2014میں چل چکی۔

 وہی لوگ، وہی رستے، وہی منزل، کل 2014 میں بھی آزادی مارچ، آج 2019 میں بھی آزادی مارچ، کل 2014 میں بھی اپوزیشن 14مہینوں بعد حکومت کیخلاف سڑکوں پر ، آج 2019 میں بھی اپوزیشن 14مہینوں بعد حکومت کیخلاف سڑکوں پر، ہاں یہ تبدیلی ضرور، کل 2014 میں سالارِ قافلہ عمران خان، آج 2019 کے دلہا مولانا صاحب۔

کل 2014 میں جو عمران خان فرمارہے تھے، آج 2019 میں وہی مولانا فرمارہے، کل 2014 میں جو نواز شریف فرمارہے تھے، آج 2019 میں وہی عمران خان فرمارہے، کل 2014 میں عمران خان اپوزیشن میں اور پی پی، ن لیگ، مولانا حکومت میں، آج 2019 میں عمران خان حکومت میں اور پی پی، ن لیگ، مولانا اپوزیشن میں۔

ذراکل، آج مطلب ایک ہی جگہ گھمن گھیریاں کھاتی کچرا سیاست کے چند نمونے ملاحظہ کریں، پہلے یہ، عمران خان کیا فرمایا کرتے، 3اگست 2014، جعلی مینڈیٹ سے بنی حکومت کا وقت ختم، میں گرفتار ہو سکتا ہوں، پارٹی متبادل قیادت تیا ررہے، 4اگست 2014، مجھے منانے کا وقت گزر گیا، نو مذاکرات، مجھے نظر بندکیا گیا تو پورا ملک بند کر دیں گے، پرامن احتجاج جمہوری حق، نئے انتخابات سے کم کچھ قبول نہیں، 13اگست 2014، وزیراعظم سے استعفیٰ لینے آرہاہوں، ملک برباد ہوگیا، یہ حکومت رہی، کچھ نہیں بچے گا، یہ عمران خان کے صرف 3بیانات، سینکڑوں اور بھی۔

 لیکن یہ 3بیانات جو عمران خان نے کل 2014 میں داغے، آج 2019 میں یہ تینوں بیانات مولانا داغ چکے، اب نواز شریف کے تین بیانات، 13اگست 2014، دھرنے والوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہوں، لانگ مارچ والے مسلسل جھوٹ بول رہے، یہ ملکی ترقی روکنا چاہتے، 22 اگست 2014، مارچ، دھرنے کا مقصد معیشت تباہ کرنا، مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانا، 30 ستمبر 2014،مارچ، دھرنے عالمی سازش، نرمی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، مٹھی بھر عناصر سے نمٹنا جانتے ہیں۔

 یہ نواز شریف کے صرف 3بیانات، یہ عمران خان، وزراء فرماچکے، آگے سنئے، 4اگست 2014 نواز حکومت کہہ رہی تھی، مظاہروں، دھرنوں میں غیر ملکی پیسہ استعمال ہورہا، آج موجودہ حکومت مولانا کے بارے میں یہی کہہ رہی، کل چوہدری نثار نے کہا، دھرنا سیاسی اجتماع نہیں، پاکستان کے خلاف بغاوت، آج یہی وزراء فرمار ہے۔

اب آجائیں مولانا صاحب کی طرف، عمران خان دھرنے کے دوران نواز شریف کے اتحادی، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین، مولانا کیا کہا کرتے، 3اگست 2014، دھرنے، لانگ مارچ، اوچھے ہتھکنڈے جمہوریت کیلئے نقصان دہ، 5اگست 2014، دھرنے، لانگ مارچ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے ہوتے ہیں، 15اگست 2014، مارچ، دھرنے بازمنتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہے، ان پر بغاوت کے مقدمے قائم کئےجائیں۔

28اگست 2014، وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ غیر آئینی، غیر منطقی، میڈیا نے ہر طرف آگ لگا رکھی، اگر میڈیا 24گھنٹوں کیلئے بند کر دیاجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا، یہ تھے مولانا فضل الرحمٰن، جو آج جھوٹ پر اپنے خوابوں کا تاج محل تعمیرکئے بیٹھے، جو آج اس لئے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے کہ خود اقتدار سے باہر اور عمران خان سے اندھی نفرت، کہنا یہ، چلو مان لیا، مہنگائی، بے روزگاری، بیڈ گورننس، لوٹ مار جیسے معاملات کبھی بھی مولانا کی توجہ حاصل نہ کر پائے۔

 لیکن پاکستان، کشمیر، اسلام، ان کاتو مولانا صبح وشام ورد کریں مگر مولانا یہ بتانا پسند کریں گے کہ اپنی تین ساڑھے تین دہائیوں پرپھیلی سیاست میں صرف 3کام جو پاکستان کیلئے کئے ہوں، 3کام جو اسلام کیلئے کر چکے، 3کام جو بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی کشمیرکیلئے کئے، پھر یہ جھوٹ کیوں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ، کشمیر کا سودا ہوگیا، عمران حکومت اسرائیل کو تسلیم کررہی، اسلام یا تحفظ ِناموس رسالت خطرے میں، دن دہاڑے ایسے جھوٹ، ایسی دیدہ دلیری سے جھوٹ، توبہ توبہ۔

دوسری طرف نواز سیاست، جھوٹ کومنافقت کے تڑکے، کل نواز شریف کہا کرتے، لانگ مارچ، دھرنوں کے ذریعے حکومت فارغ کرنے والوں پر آرٹیکل 6لگنا چاہئے، آج نواز شریف کہہ رہے، سب مولانا کے لانگ مارچ، دھرنے کو کامیاب بنائیں، کل نواز شریف کہا کرتے، لانگ مارچ، دھرنے ملکی معیشت کی تباہی اور یہ ملک دشمنی، آج نواز شریف کہہ رہے، سب مولانا کے لانگ مارچ، دھرنے کو کامیاب بنائیں، کل نواز شریف کہا کرتے، اگر دھاندلی ہوئی، ثبوت دیں، سب کچھ پارلیمنٹ میں طے کریں۔

 آج نواز شریف کہہ رہے، کوئی دھاندلی ثبوت نہیں دینا، بس مولانا کے ساتھ سڑکوں پر آئیں، مولانا کو کامیاب کرائیں، کل نواز شریف دکھی ہو کر کہا کرتے، یہ کیسا ملک یہاں 18وزیراعظموں کو مدت پوری نہ کرنے دی گئی(حالانکہ دو وزیراعظموں کو خودمقررہ مدت سے پہلے گھر بھجوایا) آج نواز شریف کہہ رہے مولانا کا ساتھ دو مطلب انیسویں وزیراعظم کو بھی مقررہ مدت سے پہلے گھر بھجوا دو، کل نواز شریف کہا کرتے، سیاست میں غداری کے فتوے، مذہبی کارڈ نہیں ہونا چاہئے، آج نواز شریف کہہ رہے غداری، فتوے، مذہبی کارڈ سب جائز، مولانا کا ساتھ دیں، عمران خان کو گھر بھجوائیں، یہی حال زرداری صاحب کا بھی، 24گھنٹے دکان کھولے بیٹھے، پہلے آؤ، پہلے پاؤ۔

 بدقسمتی، بدنصیبی، یہی ہماری کچرا سیاست، کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے، یہی ہماری کچرا سیاست، جس کا ایک ہی اصول کہ کوئی اصول نہیں، یہی ہماری کچرا سیاست، اپنے پاؤبھر گوشت کیلئے دوسرے کا پورا بکرا ذبح کردو، یہی ہماری کچرا سیاست کہ ملک پر یہ وقت، پارلیمنٹ میں کشمیر پر متفقہ قرار داد منظور ہوتو عمران خان، آصف زرداری، بلاول بھٹو، شہباز شریف پارلیمنٹ میں موجود نہ ہوں اور سی پیک اتھارٹی بل، جی ہاں سی پیک بل جسے پارلیمنٹ سے منظور ہونا چاہئے تھا، اس کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کرنا پڑے۔

مزید خبریں :