حضور ﷺ آئے، تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا

12 ربیع الاول ماہِ ربیع الاوّل کی وہ منوّر صبح تھی جس نے  اپنی رحمتوں، برکتوں اور محبّتوں کے سحر میں ڈوبی فضائوں میں، درود و سلام کے تحفے ہمیشہ کے لیے بکھیر دیے— فائل فوٹو

گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نمودار ہوتی موسمِ بہار کی معطّر و معظّم صبحِ صادق کی نوخیز رُوپہلی کرنیں، بادِ صبا کے مسحور کُن، مُشک بُو جھونکوں کے ساتھ خراماں خراماں حجازِ مقدّس کے کالے سنگلاخ پہاڑوں کی جانب رواں دواں ہیں۔

 یہ ماہِ ربیع الاوّل کی وہ منوّر صبح ہے کہ جو اپنی رحمتوں، برکتوں اور محبّتوں کے سحر میں ڈوبی فضائوں میں، درود و سلام کے تحفے بکھیرتی، خالقِ ارض و سما کی جانب سے اہلِ زمین کے لیے ایک عظیم نوید لے کر حاضر ہوا چاہتی ہے۔

یہ اس سرمدی پیغامِ نو بہار کی زندہ وتابندہ صبح ہے کہ جو کائنات کے ویرانوں کو توحیدِ حق کی روشنیوں سے منوّر، حق و انصاف کی رعنائیوں اور امن و امان کی زیبائش سے آراستہ کر دے گی۔ یہ صبحِ خوش جمال، ازل و ابد کی وسعتوں پر محیط اُن تاریخ ساز لمحات کی امین ہے، جو مظلوم نسلِ انسانی کو شرفِ آدمیت سے سرفراز کرنے والے ہیں۔ اُفق تا اُفق پھیلی روشنیوں کی تابندہ علامت یہ سپیدۂ سحر، جزائرِ عرب کے ہر گوشے کو روشن کرنے کو ہے کہ یہی وہ مقدّس مقام ہے ، جہاں سے آفتابِ رسالتؐ کا ظہور ہوگا۔

عرب کے نخلستانوں کے برگ و شجر اور باغ و ثمر مُسکرا، کِھلکھلا اُٹھے ہیں، شبنم کے قطروں سے نہائے، نرم و نازک لالہ و گل کی بھینی بھینی مدہوش کُن خُوش بُوئوں نے صبحِ بہاراں کی فضائوں کو مہکا دیا ہے۔بحیرۂ عرب سے آنے والی وجد و کیف کے نغمے بکھیرتی، بھیگی ہوائوں کے مسحور کُن جھونکوں نے مکّۂ معظّمہ کی فضائوں میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیر کر صبحِ پُرنور کے حُسنِ باکمال کو دوبالا کر دیا ہے۔

بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے یہ تارے، یہ دھنک، یہ کہکشاں، یہ اُجالے، آسمانوں کی سجاوٹ، ملائکہ کی خوشیاں، حوروں کا تبّسم، جنّت سے آنے والی مشک و عنبر کی خُوش بُو، فضائوں کی نغمگی، ہوائوں کی گنگناہٹ، دریائوں کی لہروں کا ترنّم، سمندر کی موجوں کا تلاطم، پرندوں کی چہچہاہٹ، درختوں کی سرگوشیاں، فلک سے رنگ و نور کی بارش، جبرائیل امینؑ کی زمین پر بار بار آمد…یہ سب اُن بابرکت، عظیم تاریخی لمحات کی نوید ہیں کہ جن کا انتظار اہلِ ارض و سما کو ازل سے تھا۔

وہ، جن کے ظہور کی نوید ربّ العالمین نے تخلیقِ آدمؑ سے پہلے ہی دے دی تھی اور جن کا وجود، وجۂ تخلیقِ کائنات بنا۔ یہ نوید ہے، اُس صاحبِ جاہ و جمال کے ظہورِ قدسی کی کہ جو اللہ کے محبوب، نبیوں کے امام، انسانیت کے محسن، رحمتِ دوعالم، غریبوں کے والی، یتیموں کے ملجا ہیں… جن کا اسمِ مبارک’’ محمّدﷺ‘‘ عرشِ معلّیٰ پر لکھا گیا… جن کی مدحت سرائی تاقیامت ہوتی رہے گی۔

مرحبا سیّدی مکّی و مَدنیﷺ

فجر کا وقت ہے۔ بیتُ المعمور پر فرشتے ربّ ِ کعبہ کے حضور سر بسجود ہونے کے لیے صف بستہ ہیں کہ اچانک دُور آسمانوں، نور کی روشن کرنوں، بکھرے بادلوں کے ٹکڑوں، عرب کے صحرائوں، یثرب کے نخلستانوں، مکّہ کے پہاڑوں، سمندر اور دریا کی لہروں، جنگلوں، بیابانوں، کھیتوں، کِھلیانوں، مرغ زاروں، سبزہ زاروں سے، زمین و زماں، ساگر کی بَل کھاتی موجوں، پَربت کی آب شاروں، مشرق سے اُبھرتے اُجالوں، کعبے کے در و دیوار اور عرشِ بریں سے صدائیں بلند ہوئیں’’مرحبا سیّدی مکّی و مَدنی، مرحبا شمس الضّحیٰ، بدرُالدّجیٰ، نورُ الہدیٰ مرحبا۔‘‘

علّامہ شبلی نعمانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ’’ آج کی صبح، وہی صبحِ جاں نواز، وہی ساعتِ ہمایوں، وہی دور فرّخ فال ہے۔ اربابِ سیر اپنے محدود پیرایہ بیان میں لکھتے ہیں کہ آج کی رات ایوانِ کسریٰ کے14کنگرے گر گئے، آتش کدۂ فارس بُجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ نہیں، بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ آتشِ فارس نہیں، بلکہ جحیمِ شر، آتش کدۂ کفر، آذر کدۂ گم راہی سرد ہو کر رہ گئے۔

صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی، بُت کدے خاک میں مل گئے، شیرازۂ مجوسیّت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جَھڑ گئے۔ توحید کا غلغلہ اُٹھا، چمنستانِ سعادت میں بہار آ گئی، آفتابِ ہدایت کی شعائیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاقِ انسانی کا آئینہ پرتوِ قدس سے چمک اٹھا۔ یعنی یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، شاہِ حرم، حکم راںِ عرب، فرماں روائے دوعالَم، شہنشاہِ کونینﷺ، عالمِ قُدس سے عالمِ امکان میں تشریف فرمائے عزّت و اجلال ہوئے۔‘‘

تاریخ ولادتِ باسعادت

تاریخِ ولادت سے متعلق مِصر کے مشہور ہیئت داں، محمود پاشا فلکی نے دلائل سے ثابت کیا کہ آپﷺ کی ولادت9ربیع الاوّل، بروز دوشنبہ، 20اپریل571ء میں ہوئی (سیرتُ النّبیؐ، حصّہ اوّل، ص117)۔ تاہم، ابنِ ابی شیبہؒ نے حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ اور حضرت جابر بن عبداللہؓ کا قول نقل کیا ہے کہ آپﷺ 12ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔

اس کی تصریح محمّد بن اسحاقؒ نے کی اور جمہور اہلِ علم میں یہی تاریخ مشہور ہے(سیرتِ سرورِ عالمؐ، جلد دوم، ص93)۔اسحاق بن عبداللہؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی والدہؓ نے کہا کہ’’ آپؐ کے پیدا ہوتے ہی مجھ سے ایک ایسا نُور نکلا کہ مُلکِ شام کے قصر و ایوان اُس سے روشن ہو گئے۔‘‘ حضرت عبّاسؓ بن عبدالمطلب کے حوالے سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب دنیا میں تشریف لائے، تو پیدائشی آلائش سے پاک صاف تھے، ختنہ شدہ اور ناف کٹی ہوئی تھی۔

عبدالمطلب اس پر متعجب ہوئے۔ اُنہوں نے خوش ہوتے ہوئے کہا’’ میرے اس لڑکے کی ایک خاص شان ہو گی‘‘(طبقات ابنِ سعد، ج1، ص111)۔ دادا، عبدالمطّلب نے’’محمّد(ﷺ)‘‘ نام رکھا، جو عرب میں نیا اور غیر معروف تھا۔ آپﷺ کو والدہ کے بعد سب سے پہلے ابولہب کی لونڈی، حضرت ثُویبہؓ نے دودھ پلایا۔ حضرت ثُویبہؓ نے آپﷺ سے پہلے حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب اور آپﷺ کے بعد ابو سلمہؓ بن عبدالاسد مخزومی کو بھی دودھ پلایا (رحیق المختوم)۔

حلیۂ مبارک

آنحضرتﷺ کا قدِ مبارک زیادہ لمبا تھا، نہ پَست، بلکہ درمیانہ قامت ،مائل بہ درازی، مجمعے میں دوسروں سے نکلتا ہوا معلوم ہوتا۔ جسمِ اطہر گٹھا ہوا، اعضاء کے جوڑوں کی ہڈیاں چوڑی اور مضبوط، چہرہ ہلکی گولائی لیے ہوئے، یعنی بیضوی اور چاند کی طرح روشن۔

حضرت جابرؓ بن سمرہ نے آپﷺ کے چہرۂ انور کو روشن اور چمک دار ہونے کی بناء پر سورج سے تشبیہ دی (عون الباری۔ 223/4)۔ حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ خوشی کے لمحات میں حضور اکرمﷺ کا چہرۂ مبارک ایسا چمکتا، جیسے چاند کا ٹکڑا۔ چمک دیکھ کر ہم آپﷺ کی خوشی پہچان جاتے۔‘‘ پیشانی کشادہ، ابرو خم دار، باریک اور گنجان، مگر دونوں جُدا جُدا، دونوں کے درمیان ایک رَگ اُبھری ہوئی، جو غصّے کے دوران نمایاں ہو جاتی۔

سیاہ پُتلیوں والی قدرتی سُرمگیں آنکھیں، سفید حصّے میں سُرخ ڈورے، نیچی نظریں، گوشۂ چشم سے دیکھنے کا حیا دارانہ انداز، پلکیں دراز و خُوب صُورت، ناک بلندی مائل، اس پر نورانی چمک، رُخسار شفّاف اور ہم وار۔ دہنِ مبارک کشادہ۔ دندان شریف نہایت سفید، باریک، جیسے خورشید کے ذرّے، جو شبِ تاریک میں تاروں سے زیادہ چمکتے۔

داڑھی مبارک کے بال خُوب صُورت، گنجان اور بھرپور، جو سینۂ مبارک کو بھر دیتے، زیرِلب چند سفید بال۔ گردن پَتلی اور دراز ۔ سَر بڑا، مگر مناسبت کے ساتھ، سَر کے بال بالکل سیدھے، نہ زیادہ پیچ دار، ہلکا خم لیے ہوئے، کبھی کانوں کی لو تک لمبے، کبھی شانوں تک۔ صحیح بخاری میں حضرت ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے سَر کے بال لٹکائے رکھتے ،جب کہ مشرکین مانگ نکالتے تھے۔ بعد میں آپﷺ بھی مانگ نکالنے لگے تھے۔ جب حضورﷺ کی وفات ہوئی، تو آپﷺ کے سَر اور داڑھی میں بیس کے قریب بال سفید تھے۔

آپﷺ کے شانے چوڑے اور دونوں شانوں کے درمیان فاصلہ عام پیمانے سے زیادہ تھا۔ شانوں کے درمیان پیٹھ پر کبوتر کے انڈے کے برابر مُہرِ نبوّت تھی۔ کلائیاں لمبی چوڑی، ہتھیلیاں فراخ اور ریشم کی طرح نرم و ملائم۔ انگلیاں موزوں حد تک دراز، نازک اور نہایت خُوب صُورت۔ سینہ چوڑا اور پیٹ بالکل ہم وار تھا۔ بدن پر زیادہ بال نہ تھے۔

سینۂ مبارک پر ناف تک بالوں کی باریک لکیر، کندھے، بازو اور سینے پر بالائی حصّے میں تھوڑے سے بال تھے۔ پنڈلیوں پر گوشت نہیں تھا۔ ایڑیاں نازک اور ہلکی تھیں۔ رنگت نہ چُونے کی طرح سفید، نہ سانولا پن، بلکہ سُرخی مائل سفید اور ملاحت و چمک ایسی گویا کہ چاندی سے ڈھلا ہوا بدن۔ ترمذی کی روایت کے مطابق، رسول اللہﷺ کے نصفِ اعلیٰ یعنی سَر، چہرہ اور سینے میں حضرت حَسنؓ اور آپﷺ کے نصفِ اسفل میں حضرت حسینؓ مشابہہ تھے۔(فتح الباری۔97/6)۔ نبی کریمﷺ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ مفسرّین کے مطابق آنحضرتﷺ کا سایہ نہیں تھا۔

اخلاق اور عاداتِ مبارکہ

حضور نبی کریمؐ کی ذاتِ بابرکات، اخلاق و فضائل، صفات و جمال میں اعلیٰ و اشرف ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ اور اُن کا بیان انسانی قدرت و طاقت سے باہر ہے۔ بخشش و عطا کا یہ عالم کہ سائل کا دراز ہاتھ، درِ مصطفیٰﷺ سے کبھی خالی نہ گیا۔ سادگی و انکساری ایسی کہ کبھی کسی کام کو حقیر نہ سمجھا۔ بکریاں چَرائیں، مسجدِ نبویؐ میں پتھر ڈھوئے، جنگِ خندق میں خندق کھودی۔ ایک صحابیؓ نے پیٹ سے کپڑا ہٹایا، ایک پتھر بندھا تھا، میرے آقاﷺ نے جب کپڑا ہٹایا، تو دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اپنے کپڑے خود دھو لیتے، کپڑوں کو پیوند لگا لیتے۔

جوتوں کو خود گانٹھ لیتے۔ بازار سے نہ صرف اپنا سودا لاتے، بلکہ اہلِ محلّہ کا بھی لے آتے، بکری کا دودھ دوہتے۔ گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہراتؓ کا ہاتھ بٹاتے، یہاں تک کہ آٹا بھی گوندھوا دیتے۔ اپنی ازواجؓ سے بے انتہا محبّت فرماتے، اُن کے حقوق کا خیال رکھتے، شکایات صبر و تحمّل سے سُنتے۔ اُن کے آرام اور ضروریات کا خیال رکھتے۔ اُنہیں نازک آبگینوں سے تشبیہ دیتے۔

انسان ہو یا حیوان، کسی کی بھی تکلیف پر تڑپ اٹھتے۔ عموماً سفید لباس زیبِ تن فرماتے۔ سبز رنگ بھی پسند فرمایا۔ سبز یمنی چادر پسند تھی۔ تاہم، سُرخ رنگ کا لباس مَردوں کے لیے ناپسند تھا۔ نیا کپڑا عموماً جمعے کے دن زیبِ تن فرماتے۔ خُوش بُو بہت پسند تھی اور اس کا کثرت سے استعمال فرماتے۔

صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ جس گلی یا کُوچے سے گزر جاتے، وہ معطّر ہو جاتا اور لوگ پہچان لیتے تھے کہ حضورﷺ کا گزر ہوا ہے۔ آنحضرتﷺ کے جسمِ اطہر سے قدرتی طور پر خُوش بُو آتی تھی، اگرچہ خوش بُو استعمال نہ بھی کی ہو۔ رسول اللہﷺ کی گفتگو نہایت شیریں اور دِل آویز تھی۔ ایک ایک فقرہ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے، جیسے موتیوں کی لڑی پروئی ہو اور سُننے والا گفتگو کے سحر میں کھو جاتا۔

ضرورت سے کم بولتے اور نہ زیادہ۔ گفتگو کے دوران عموماً تبسّم فرماتے رہتے۔ حضورﷺ افصح العرب تھے، چناں چہ کلام کا ادبی معیار بہت بلند تھا، لیکن الفاظ عام فہم اور سادہ ہوتے۔ ثقیل اور مشکل الفاظ استعمال نہ کرتے۔ عبداللہ بن حارثؓ کہتے ہیں کہ’’ مَیں نے حضورﷺ سے زیادہ تبسّم کرنے والا نہیں دیکھا‘‘(ترمذی)۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ’’تبسّم ہی آپﷺ کی ہنسی تھی‘‘ (ترمذی)۔

سیرتِ طیّبہ کا پیغام

رسول اللہﷺ کی سیرتِ مبارکہ کسی ایک فرد کی سیرت نہیں، بلکہ تعمیرِ انسانیت کا ایک ایسا انقلابی ضابطۂ حیات ہے کہ جس نے تاریکی میں ڈوبی، سسکتی انسانیت کو حیاتِ نو عطا کی، جس نے دنیا بھر کے مظلوم و مجبور، غرباء و مساکین کو جرأتِ گویائی عطا کی۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کی طاقت دی، جس نے کائنات کی اخلاقی قدریں، معاشی و معاشرتی نظام، دستور و قانون، عادات و اطوار، انداز و بیان، عدل و انصاف کے پیمانے بدل ڈالے۔ حضور نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ ایک ایسے پاکیزہ دریا کی مانند ہے کہ جس میں حرکت بھی ہے، موجیں بھی۔

روانی بھی ہے، کش مکش بھی، سیپیاں بھی ہیں اور موتی بھی۔ یہ دریا، مُردہ کھیتیوں کو زندگی فراہم کرتا ہے، تو انسان کے لیے آبِ حیات ہے۔ سیرتِ طیبہ میں جلال بھی ہے اور جمال بھی۔ روحانیت ہے تو مادیت بھی۔ دین ہے، تو دنیا بھی۔ افراد کے حقوق ہیں، تو فرائض بھی۔ قیادت کے اُصول ہیں، تو سیاست کے اطوار بھی۔ ظالموں کی پکڑ ہے، تو مظلوموں کی داد رَسی بھی۔

حقوق اللہ کی تعلیم ہے، تو حقوق العباد کا درس بھی۔ بندوں کے ساتھ محبّت و شفقت ہے، تو سخت ترین اجتماعی و انفرادی نظم و ضبط بھی۔ دنیا کی آزمائشوں کا ذکر ہے، تو جنّت کی آسائشوں کا بھی۔ اہلِ مغرب اور دیگر غیرمسلم ترقّی یافتہ قوموں نے حیاتِ طیبہ کے صرف چند نمونوں کو اپنے منشور کا حصّہ بنایا اور تعمیر و ترقّی کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، لیکن عالمِ اسلام پر ایک ایسا جمود طاری ہے کہ اب ہمارے مُردہ لاشے میں جذبے انگڑائی لیتے ہیں، نہ ذوقِ عمل میں کوئی حرارت پیدا ہوتی ہے۔

عزم و ہمّت ہے اور نہ ہی غیرت و حمیّت کا خون ہماری رگوں میں دوڑتا ہے۔ جس عظیم ہستی کی سیرتِ طیبہ نے دنیا کے گوشے گوشے میں علم و عمل کے چراغ روشن کر کے انسانیت کو کمالِ عروج پر پہنچایا، افسوس کہ ہم اُن کے پیغام سے کوسوں دُور ہوچُکے ہیں۔

سیرت کی ہزارہا کُتب ہمارے کُتب خانوں میں ہیں، مگر ہم اپنی زندگی کو ان کتب میں دی گئی ہدایات کے مطابق ڈھالنے پر آمادہ نہیں۔ حد تو یہ کہ آج دنیا کے58اسلامی ممالک میں ایک بھی ایسا نہیں کہ جس میں’’ ریاستِ مدینہ‘‘ کی جھلک نظر آتی ہو۔ ہر طاقت وَر سے مرعوب ہونا اور کاسۂ گدائی لیے پِھرنا ہمارا طرّۂ امتیاز بن چُکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآنِ پاک کو طاقِ نسیاں میں سجا دیا اور محسنِ اعظمﷺ کی سیرتِ طیبہ کو شوکیس کی زینت بنا دیا۔

یومِ ولادتِ باسعادت سرکار دوعالمؐ کے موقعے پر اصل پیغام یہی ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کا بغور مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو بدلنے کے لیے جدوجہد کریں۔ جب ہم تبدیل ہوں گے، تو معاشرہ اور حکم راں بھی تبدیل ہوں گے۔ یہی دنیا و آخرت میں کام یابی کا واحد راستہ ہے۔ بہ قول علّامہ اقبال؎ وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمّدن میں ہنود…یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔‘‘

مزید خبریں :