23 دسمبر ، 2019
ذرا مشرف کہانی کو فاسٹ فارورڈ کر کے ایک نظر مارلیتے ہیں، 12اکتوبر 1999مارشل لا لگایا، 3نومبر 2007ایمرجنسی لگائی، افتخار چوہدری سمیت 61ججز فارغ، 18اگست 2008، نو سالہ حکمرانی کے بعد مستعفی، 31جولائی 2009، فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رولنگ ’’پرویز مشرف نے آئین توڑا، غداری کا مقدمہ چلایا جائے‘‘،
پیپلز پارٹی حکومت کسی نہ کسی طرح ٹال مٹول کرکے وقت گزار گئی، نواز حکومت آئی، 2013، چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ریمارکس ’’نواز حکومت نے پرویز مشرف کا ٹرائل شروع نہ کیا تو حکومت کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلے گا‘‘،
نواز حکومت کا چارو ناچار ایف آئی اے (جی آئی ٹی) تحقیقات کا آغاز، 3ماہ میں رپورٹ کا آنا، 20نومبر 2013، سپریم کورٹ کا خصوصی عدالت بنانا، 31 مارچ 2014، پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد ہونا، پرویز مشرف کا درخواست دینا، ایمرجنسی لگانے میں 524 افراد نے معاونت کی، اُن پر بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔
21 نومبر 2014، خصوصی عدالت کا شوکت عزیز، زاہد حامد، عبدالحمید ڈوگر کو شاملِ تفتیش کر لینا، مارچ 2016، جسٹس کھوسہ کا سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی درخواست پر فیصلہ دینا ’’3نومبر 2007کی ایمرجنسی نفاذ کے ذمہ دار صدر پرویز مشرف، خصوصی عدالت کو اختیار نہیں کہ کسی بھی شریک ِملزم کیخلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو ہدایت دے‘‘۔
8مارچ 2016، خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کروانے کیلئے 31مارچ 2016کو طلب کرنا، نواز حکومت کا پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنا، 18مارچ 2016، پرویز مشرف کا ملک سے چلے جانا، یکم اپریل 2019، سپریم کورٹ کا حکم، پرویز مشرف واپس آکر بیان ریکارڈ کروائیں، عدالت کا 6دفعہ بلانا، 12مرتبہ سپریم کورٹ میں پرویز مشرف واپسی کا ذکر ہونا، پرویز مشرف کا واپس نہ آنا، عدالت کا مشرف کا حق دفاع ختم کر دینا، 23اکتوبر 2019، استغاثہ کا تحریری جواب جمع کرانا، 23اکتوبر کی رات حکومت کا استغاثہ ٹیم ڈی نوٹیفائی کرنا، 28اکتوبر 2019، خصوصی عدالت کا کہنا فیصلہ 28نومبر 2019کو سنایا جایا جائےگا۔
27نومبر 2019کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دینا، 17 دسمبر 2019کو خصوصی عدالت کا مختصر فیصلہ سنا دینا، 19دسمبر 2019 کو تفصیلی فیصلہ آنا، یہ چند موٹی موٹی چیزیں ،تفصیل میں لکھتا تو 10کالموں کا مواد۔
6سال کیس چلا ،125سماعتیں، 6بار خصوصی عدالت کی تشکیل نو، 7ججز کا کیس سننا، مختصر فیصلہ 4سطری، تفصیلی فیصلہ 169صفحات کا، جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس شاہد کریم کا فیصلہ 68صفحات کا، جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44صفحات کا،جسٹس شاہد کریم کا ا ضافی نوٹ 57 صفحات کا، فیصلہ دو ایک سے مشرف کیخلاف، فیصلے میں آئین توڑنا، ججز کو نظر بند کرنا، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنا، بحیثیت آرمی چیف آئین معطل کرنا، غیر قانونی پی سی اوجاری کرنا، پانچوں جرم ثابت ہوئے، لہٰذا پرویز مشرف کو 5بار سزائے موت دی جائے۔
جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ ،پارلیمنٹ نے سنگین غداری جرم میں ترمیم کرکے پرویز مشرف کے 3نومبر 2007اقدام کی دانستہ توثیق کی، پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہئے تھا۔
قومی اسمبلی نے 7نومبر 2007کو قرار داد منظور کرکے ایمرجنسی نفاذ کی توثیق کی، پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کرکے پھر آرٹیکل 6میں ترمیم کرکے عدلیہ کو دھوکا دیا۔
18ویں ترمیم کرنے والوں میں زیادہ تروہی جنہوں نے 17ویں ترمیم منظور کی، عدالت سے مفرور، اشتہاری ہونے کے بعد بھی ملزم پرویز مشرف کے وکلا کیس کی پیروی کرتے رہے،
12جون 2019کو ملزم پرویز مشرف کاحق دفاع ختم کردیا گیا جبکہ استغاثہ ٹیم کو بھی موقع فراہم نہیں کیا گیا، استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، لہٰذا پرویز مشرف بری۔
جسٹس نذراکبر نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا’’میرے دونوں قابل بھائیوں (دونوں ساتھی ججز) نے آکسفورڈ ڈکشنری کے دسویں ایڈیشن میں دیئے گئے سنگین غداری کے معنی پر انحصار کیا ہے، یہاں چوہدری اعتزاز احسن، عرفان قادر کی یہ دلیل بھی ذہنوں میں رہے کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی 3نومبر 2007کو، تب آرٹیکل 6میں لفظ ’آئین معطلی‘ تھا ہی نہیں ، یہ لفظ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا 2010میں جبکہ آئین کاآرٹیکل 12کہے کوئی فوجداری قانون ماضی سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
اب آجائیے جسٹس وقار سیٹھ کے پیرا 66پر، پرویز مشرف کو ڈی چوک میں لاکر 3دن لٹکایاجائے، اگر پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جائے تو لاش گھسیٹ کر ڈی چوک میں لاکر لٹکائی جائے۔
ناقابلِ یقین، ایک صوبائی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے یہ الفاظ، ناقابلِ یقین ،یہ غیر انسانی، یہ غیر اخلاقی، یہ غیر قانونی، یہ غیر آئینی، یہ غیر اسلامی، ایسے الفاظ معاشرے میں نفرت پھیلائیں، انتشار پھیلائیں، معاشرے میں تقسیم پید ا کریں ، پچھلے چار دنوں میں جو ردِعمل آچکا، وہ آپ دیکھ چکے۔
وزیراعظم ،وزراء ،ڈی جی آئی ایس پی آرردِعمل آپ سن چکے، ٹی وی اسکرینوں، تقریروں، بیانوں میں 169صفحات کا فیصلہ گم ہوگیا، ہر طرف پیرا 66، ہم بھی عجیب بلکہ بہت عجیب ، پیرا66 چھوڑیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی 17دسمبر کی رات سپریم کورٹ رپورٹرز سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کااحوال سن لیں۔
میری طرح آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا، ایک ادارے کے بارے میں ایسی باتیں، ایک ادارے کے سربراہ کے بارے میں ایسی باتیں، دو جج صاحبان کے بارے میں ایسی باتیں، ناقابلِ یقین، فلاں مجھ سے ملنے کیلئے یہ یہ کرتا رہا، فلاں کو میں نے ایسے ڈانٹا، فلاں فلاں مجھے فلاں فلاں عہدوں کی پیشکشیں کرتا رہا۔
فلاں ایسا، فلاں ویسا، میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا، میں نے یہ کہا، میں نے وہ کہا، میں میں اور میں میں، ناقابلِ یقین، اتنا بڑا منصب، یہ باتیں…یہ سب سن کر پہلی بار میں یہ سوچنے پر مجبور کہ پچھلے ایک مہینے میں جو کچھ ہوا، وہ ایسے ہی نہیں ہوا، سب کچھ بڑی منصوبہ بندی سے ہوا۔