09 جنوری ، 2020
وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اُن جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ وہ مجھے نہ ملتے تو شاید میری زندگی آج بہت مختلف ہوتی اور میں پاکستان سے باہر ہوتا لیکن یہ فخر الدین جی ابراہیم تھے جنہوں نے دو مرتبہ مجھے پاکستان نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔
7؍جنوری کو فخرو بھائی یہ دنیا چھوڑ گئے۔ آج ہمیں اپنے اردگرد ایسے بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جن کی اصل طاقت اُن کی شخصیت و کردار نہیں بلکہ اُن کا عہدہ ہے اور وہ اِس عہدے سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں لیکن فخرو بھائی نے اپنی زندگی میں پانچ اہم آئینی عہدوں سے استعفیٰ دیا۔
اُنہیں 1971میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان بنایا۔ ایک دن اُنہیں پتا چلا کہ حکومت نے اُن سے مشورے کے بغیر شریف الدین پیرزادہ کو ایک مقدمے میں اپنا وکیل بنا لیا ہے۔ فخرو بھائی نے اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
بعد ازاں شریف الدین پیرزدہ کو 1977میں جنرل ضیاء الحق نے اپنا اٹارنی جنرل بنایا اور اُنہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1981میں فخرو بھائی سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے پی سی او لانے کا فیصلہ کیا تو جسٹس انوار الحق بڑی مشکل میں پھنس گئے۔
اُنہوں نے نصرت بھٹو کیس میں ضیاء کے مارشل لا کو اِس بنیاد پر جائز قرار دیا کہ وہ 90دن میں الیکشن کرا دیں گے لیکن ہر ڈکٹیٹر کی طرح ضیاء اپنے وعدے سے مکر گئے اور چار سال کے بعد پی سی او لے آئے۔ جسٹس انوار الحق نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بلایا اور پوچھا کہ وہ پی سی او پر حلف لیں گے یا نہیں؟ فخر الدین جی ابراہیم سب سے جونیئر جج تھے، اُنہوں نے سب سے پہلے انکار کیا۔
دوسرے جسٹس درّاب پٹیل تھے۔ تیسرے خود جسٹس انوار الحق تھے۔ اِن تینوں نے پی سی او کا حلف لینے سے انکار کیا، باقی سب ججوں نے آئین سے وفاداری کے حلف کو فراموش کر دیا۔
1988میں محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو اُنہوں نے فخرو بھائی کو گورنر سندھ بنایا۔ اُنہوں نے بطور گورنر سیٹیزن پولیس لائزن کمیٹی بنائی لیکن زیادہ عرصہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہ چل سکے اور استعفیٰ دیدیا۔ 1996 میں فاروق لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیا تو اپنی نگران حکومت میں فخرو بھائی کو بطور وزیر قانون و انصاف شامل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب میں نے فخرو بھائی کو قریب سے دیکھا۔
نگران حکومت میں کچھ لوگ بروقت انتخابات کے بجائے احتساب کی طرف جانا چاہتے تھے۔ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ انتخابات ایک سال بعد کرا لئے جائیں لیکن فخرو بھائی ڈٹ گئے۔
اُنہوں نے ملک معراج خالد کی نگران حکومت چھوڑ دی اور یہ حکومت بروقت انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی۔ 2012 میں فخر الدین جی ابراہیم نے مجھے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف اُنہیں چیف الیکشن کمشنر بنانا چاہتے ہیں یہ سن کر میں خاموش ہو گیا۔
فخرو بھائی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ’’تُو بولتا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے بڑے ادب سے کہا آپ اس چکر میں نہ پڑیں کیونکہ چیف الیکشن کمشنر بڑا بے اختیار ہوتا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی ہوگی اور آپ کا نام خراب ہوگا۔ یہ سن کر وہ خاموش رہے۔ میں نے کہا کہ مزید دوستوں سے مشورہ کر لیں۔ وہ مان گئے۔
حکومت اور اپوزیشن فخر الدین جی ابراہیم کے علاوہ کسی اور نام پر متفق نہ ہو سکے اور پھر فخرو بھائی کو جمہوریت اور پاکستان کے واسطے دیکر یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ میں نے ظاہر کیا تھا۔ 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچ گیا۔
فخرو بھائی نے اس دھاندلی کی تحقیقات کیلئے بہت کوشش کی لیکن نواز شریف حکومت نے ساتھ نہ دیا لہٰذا وہ اس عہدے سے بھی مستعفی ہو گئے اور پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔
وہ پاکستان سے صرف محبت نہیں کرتے تھے بلکہ پاکستان کی پرستش کرتے تھے۔ 1947 میں پاکستان بنا تو وہ احمد آباد گجرات میں ’’ودیا پنتھ‘‘ کے طالبعلم تھے۔ یہ یونیورسٹی مہاتما گاندھی نے بنائی تھی اور وہ اس یونیورسٹی کے چانسلر بھی تھے۔
والدین کا خیال تھا کہ بیٹا ایل ایل بی کر لے تو پاکستان چلا جائے۔ فخرو بھائی نے ایل ایل بی کیا اور 1949 میں پاکستان آ گئے۔ سندھ مسلم لا کالج کراچی سے ایل ایل ایم کیا اور ہمیں پڑھانا شروع کر دیا۔
1953 میں سنٹرل جیل کراچی میں حسن ناصر سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے جیل میں بند ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کچھ طلبہ کی ضمانت کرائی۔
نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو 1961میں غائب کر دیا گیا تو فخرو بھائی نے جی جان سے ان کی بازیابی کیلئے قانونی جدوجہد کی لیکن حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد سے مار کر ان کی لاش غائب کر دی گئی۔
فخرو بھائی زندگی کے آخری دنوں تک حسن ناصر کو یاد کیا کرتے اور کہتے تھے کہ اگر پاکستانی معاشرہ حسن ناصر کی موت پر اٹھ کھڑا ہوتا تو کبھی لاپتا افراد کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔
مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کی خبر میں نے جیو نیوز پر بریک کی تو مجھے فخرو بھائی کا فون آیا۔ اُنہوں نے کہا کہ بیٹا سچ بولنے اور مزاحمت کا وقت آگیا ہے، اگر ہم نے مشرف کو یہاں نہ روکا تو وہ آئین کو بھی برباد کرے گا۔
نومبر 2007 میں مشرف نے آئین معطل کر دیا۔ مجھ پر پابندی لگا دی گئی، ہمارے صحافی دوست شکیل ترابی کے بچوں کو اسکول میں گھس کر مارا گیا، پھر میرے بچوں پر حملہ ہوا۔
ایک یورپی ملک نے سیاسی پناہ کی پیشکش کی، ایک بڑی غیر ملکی میڈیا کمپنی نے نوکری کی پیشکش کی تو میں فخرو بھائی کے پاس پہنچا۔ انہیں سب پتا تھا کہنے لگے جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء کا مارشل لا زیادہ خطرناک تھا، زیادہ مشکل تھا، مشرف کی ایمرجنسی کا مقابلہ کرو، راہِ فرار مت اختیار کرو۔ میں نے کہا کہ میری وجہ سے بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔
بولے، بچوں کو باہر بھیج دو۔ میں نے کچھ عرصہ کیلئے بچوں کو پاکستان سے باہر بھیج دیا اور مشرف کی پابندیوں کا سڑکوں پر مقابلہ کیا اور ایک دن فخرو بھائی نے صحافیوں کے جلوس میں شامل ہو کر ہماری حوصلہ افزائی کی۔ اُن کا جسم بوڑھا ہو چکا تھا ہمت جوان تھی۔
19اپریل 2014کو کراچی میں مجھ پر حملہ ہوا تو فخرو بھائی آغا خان اسپتال کراچی میں مجھے دیکھنے آئے۔ اُس دن کچھ لوگ مجھے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے۔
نجانے کہاں سے ایک ایئر ایمبولینس آکر کراچی میں کھڑی تھی اور میرے علاج کے ذمہ دار ڈاکٹر انعام پال مجھے سمجھا رہے تھے کہ آپ کی زندگی بچائی جا چکی ہے، آپ کا علاج پاکستان میں ممکن ہے لیکن میں آپ کو باہر جانے سے نہیں روک سکتا۔
اِس موقع پر فخرو بھائی نے مجھے کہا تم باہر جاکر کیا کرو گے؟ میں نے جواب دیا ایک کتاب لکھوں گا۔ فخرو بھائی نے کہا ہاں میں جانتا ہوں تیری کتاب سپرہٹ ہو گی تجھے بہت پیسہ ملے گا تو اپنے دشمنوں کا منہ کالا کر دے گا لیکن تیرا پاکستان سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔
پاکستان سے مت جا۔ پھر اُنہوں نے مجھے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا تو میرا بہادر بیٹا ہے، تو میرا فخر ہے، تو فخرو کا فخر ہے، تو پاکستان سے نہیں جائے گا۔ فخرو بھائی رخصت ہوئے تو میں نے ڈاکٹر انعام پال کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ میں کہیں نہیں جاؤں گا اور پھر اُنہوں نے ایک صاحب کی مجھ سے ملاقات پر پابندی لگا دی۔
فخرو بھائی دنیا سے چلے گئے لیکن اُن سے وابستہ یادیں میرا سرمایہ ہیں۔ وہ چلتا پھرتا پاکستان تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ نئی نسل زیادہ ایماندار اور زیادہ بہادر ہے۔
آج کی نئی نسل کیلئے مشعلِ راہ فخر الدین جی ابراہیم کی زندگی ہے جنہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر پانچ اہم آئینی عہدے چھوڑ دیے۔ ان کی طاقت اُن کا کردار تھا، عہدہ نہیں۔ وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔