11 جنوری ، 2020
آج کل مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کی کچھ با اثر افراد بشمول ایک ریٹائرڈ بوڑھے شخص کے ساتھ گاڑھی چھن رہی ہے ان کے رابطوں کے متعلق پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی علم ہے لیکن انہیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس رہنما نے دونوں فریقین کے درمیان رابطے کا کام کیا ہے۔ توسیع کے معاملے پر ان کی بات کو اہمیت دی گئی تھی لیکن کئی لوگوں بشمول ان کی اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو ان پر شک تھا کہ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں۔
چند ہفتے قبل انہوں نے اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو لندن میں ایک اہم پیغام دیا تھا جس میں مسلم لیگ ن کے لئے اقتدار میں شراکت کی بات شامل تھی۔ پارٹی کے با اثر حلقوں کے ساتھ رابطوں کی بات نئی نہیں۔ نواز شریف جب اڈیالہ جیل میں تھے تو اس وقت انہوں نے ایک انتہائی با اثر شخص کا استقبال کیا تھا۔ چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کی گرفتاری کے وقت اسی شخصیت نے ایک مرتبہ اُن سے ملاقات کی تھی اور ساتھ ہی ٹیلیفون پر بھی گفتگو کی تھی تاہم، ان رابطوں کے باوجود شریف فیملی کے فائدے کے لئے کچھ نہیں ہوا۔
لیکن اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں کیونکہ شریف فیملی کی سوچ بھی بدل چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شریف خاندان کی اولین ترجیح اس وقت یہ ہے کہ اصل قوتوں کے ساتھ خراب تعلقات کو درست کیا جائے۔ ن لیگ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شریف فیملی اس وقت اقتدار میں شراکت کے آپشن کو وزن نہیں دے رہی لیکن موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لئے نئے الیکشن کے امکانات کو دیکھ رہی ہے۔ عمومی طور پر ن لیگ اور خصوصاً اس کے اعلیٰ قائدین نواز شریف اور مریم نواز پر پارٹی کے اندر اور باہر سے شدید تنقید ہو رہی ہے کیونکہ انہوں نے عوام کی بالادستی کے اپنے گزشتہ چند برسوں کے مؤقف سے مکمل یو ٹرن لے لیا ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز دونوں میڈیا کی رسائی میں نہیں ہیں لیکن ن لیگ کے دیگر رہنما کھل کر یا نجی محفلوں میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ایسا ہے جس پر کوئی قائل نہیں ہو سکتا۔ کچھ رہنما نجی طور پر اس صورتحال کی پوری ذمہ داری اسی رابطہ کرانے والے شخص پر ڈال رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو ن لیگ نے حالیہ دنوں میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر ہوا ہے۔
اس بات کی بھی کوئی وضاحت سامنے نہیں آ رہی کہ نواز شریف اور مریم نواز کیوں خاموش ہیں اگر ان کی غلط نمائندگی کی گئی ہے۔ سیاست اور میڈیا میں کئی لوگوں کو شک ہے کہ ن لیگ کی حالیہ قلابازی کسی ممکنہ رعایت کی وجہ سے ہے۔ لیگی رہنماؤں میں سے اکثر کو یہ آئیڈیا نہیں کہ ن لیگ کو اقتدار میں حصہ ملے گا یا پھر شریف فیملی کو کوئی ایسی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ انہیں اور ان کے جیلوں میں قید رہنماؤں کو کوئی مستقل ریلیف ملے گا یا نہیں۔
پارٹی کے یو ٹرن کے حوالے سے شریف فیملی نے کوئی بات نہیں کہی گئی لیکن باقی لوگ بھی اس عمل کے متعلق کوئی قابل قبول وضاحت پیش نہیں کر پائے جس نے پارٹی کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ شریف خاندان سے قربت رکھنے والے ایک ن لیگی رہنما نے دی نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ایک ایسے موقع پر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے جب نواز شریف کو پہلے ہی صحت کے مسائل درپیش ہیں۔ ذریعے نے کہا کہ ن لیگ کی قیادت ان کے خلاف حالیہ برسوں میں دائر کردہ مقدمات ختم کرنا چاہے گی۔
نواز شریف اور مریم نواز کو سزا مل چکی ہے، شہباز شریف نیب کے دائر کردہ کرپشن کیسز میں ضمانت پر رہا ہیں، نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو مفرور قرار دیا جا چکا ہے، شہباز شریف کے بڑے صاحبزادے نیب کے دائر کردہ کرپشن کیس میں جیل میں ہیں جب کہ ان کے چھوٹے بیٹے سلیمان لندن میں ہیں اور نیب کو مطلوب ہیں۔ نواز شریف کے داماد کو بھی مجرم قرار دیا گیا تھا لیکن وہ بھی ضمانت پر ہیں، جب کہ شہباز شریف کے ایک داماد پاکستان سے باہر ہیں اور وہ نیب کے مفرور ہیں۔
نواز اور شہباز کے مرحوم بھائی عباس شریف کے صاحبزادے بھی نیب کرپشن کیس میں جوڈیشل حراست میں ہیں۔ شریف فیملی کے علاوہ ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی، احسن اقبال وغیرہ جیسے رہنما بھی جیل میں ہیں اور نیب انکوائریز اور کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ کو حال ہی میں اے این ایف کے ہیروئن اسمگلنگ کیس میں ضمانت ملی ہے جب کہ مفتاح اسماعیل کو بھی نیب کے کیس میں عدالت سے یہی ریلیف ملا ہے۔
خواجہ آصف اور جاوید لطیف جیسے رہنما بھی ہیں جن کی کسی بھی وقت گرفتاری کا اندیشہ ہے۔ ن لیگ کے اہم رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی پس منظر کی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کے دوسری سطح کے رہنماؤں کو بھی اندازہ نہیں کہ نواز شریف نے اپنے سابقہ مؤقف سے کیوں پسپائی اختیار کی۔
خواجہ آصف کو شریف فیملی کے موقف او فیصلے کا دفاع کرتے دیکھا گیا اور انہوں نے حوالہ دیا کہ خاندان کو حالیہ برسوں میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو اس صورتحال سے پریشان ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیں جو فی الوقت نیب کی حراست میں ہیں یا پھر جوڈیشل حراست میں۔