05 جنوری ، 2020
میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے زیر صدارت 7 دسمبر 2019ء کو لندن میں مشاورتی اجلاس شروع ہوا تو تمام لیڈروں سے حلف دینے کا کہا گیا کہ اس اجلاس کی کہانی باہر نہ نکلے۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز قرآن کریم لائے اور یوں مشاورتی اجلاس میں شریک ہر رہنما نے قرآن پر حلف دیا اور کارروائی شروع ہوئی۔
اس سے آگے راوی صرف اتنا ہی بتاتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں قانون سازی اور اس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کسی اور نے نہیں خود میاں نواز شریف نے کیا اور کہا کہ وہ اس پرکوئی سودے بازی نہیں کرنا چاہتے۔
اس اجلاس کی روداد کوئی بھی سنانے کو تیار نہیں لیکن لندن اجلاس سے قبل نومبر کے آخری ہفتے میں سپریم کورٹ کی طرف سے آرمی چیف کی توسیع کو منسوخ کیا گیا اور بعد میں عدالت نے آرمی چیف کو چھ ماہ کے لیے توسیع دے کر حکومت کو اس بارے میں قانون سازی کی واضح ہدایت کی تو اس پر بھی نواز شریف، شہباز شریف سمیت ساری ن لیگ کی خاموشی واضح طور پر بتا رہی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
دسمبر کے لندن اجلاس کے بعد ملک میں دو اہم ترین واقعات رونما ہوئے، پہلا واقعہ 17دسمبر کو خصوصی عدالت کی طرف سے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا فیصلہ تھا اور دوسرا 27 دسمبر کو نیب کے ترمیمی آرڈیننس کا اجرا۔
دونوں واقعات بالخصوص پرویز مشرف کے خلاف سزا پر شریف برادران خاموش رہے۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اس پر کڑا جواب دیا تو انہیں چند ہی دن میں نیب نے گرفتار کر لیا۔
یہ طے ہے کہ لندن اجلاس کی کارروائی کے بارے میں 2 جنوری 2020ء تک پاکستان میں کسی شخص کو کچھ پتا نہ چلا۔ شہباز شریف نے البتہ فون کرکے پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کو اعتماد میں لینے کا تکلف ضرور کیا۔
جمعرات 2جنوری کو ایک وفاقی وزیر نے بتایا کہ یہ بل پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہو گا۔ وزیر موصوف نے مزید بتایا کہ اپوزیشن اس مجوزہ قانون کو آگے بڑھ کر منظور کروائے گی۔
وفاقی وزیر کی باتیں اس لیے حیران کن تھیں کہ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص نون لیگ تو سویلین بالادستی کے نظریے کی حامی تھی اور نواز شریف تو ہمیشہ اس کے خلاف رہے۔ ماضی بعید میں جنرل اسلم بیگ کی ملازمت میں توسیع سے انکار کیا، پیپلز پارٹی نےجنرل کیانی کو توسیع دی تو اس کی بھی مخالفت کی۔
نون لیگ کے آخری دور حکومت میں صدر ممنون حسین، ساری وفاقی کابینہ اور دیگر اہم شخصیات جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی سفارشیں کرتے رہے مگر نواز شریف نے کسی کی نہ سنی حتیٰ کہ سگے بھائی شہباز شریف اور دوست چوہدری نثار علی خان کی بھی نہیں۔
اسی حیرت میں گم تھا کہ پارلیمانی رپورٹر ارشد وحید چوہدری نے خبر دی کہ نون لیگ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے مجوزہ بل کی غیر مشروط حمایت کر دی ہے۔ اس خبر نے کچھ ہی دیر پہلے وفاقی وزیر کی طرف سے میرے سامنے کیے گئے دعوے کی توثیق کر دی۔
نظریاتی سودے بازوں کی دنیا میں کچھ باضمیر لوگ بھی ہوتے ہیں۔ گوجرانوالہ سے ایسے ہی ایک رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار چیمہ نے نون لیگ کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پارٹی قیادت کی طرف سے مجوزہ بل کی حمایت کے فیصلے پر بڑی لے دے کی ہے۔
بند کمرے کے اجلاس میں نثار چیمہ نے اجلاس کی صدارت کرتے خواجہ آصف کو مخاطب کرکے کہا کہ جس طرح آپ نے اپنے بزرگوں کی طرف سے ضیاء الحق کی حمایت پر معافی مانگی تھی، بالکل اسی طرح ہمارے جانشین کہیں گے کہ ہم نے سویلین بالادستی کا تاریخی موقع گنوا دیا۔
ڈاکٹر نثار چیمہ جو خود ایک ماہر تعلیم ہیں، نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کہا کہ ایسے قوانین اداروں کے لیے نہیں، دینے اور لینے والے کے مفاد میں ہوتے ہیں۔
نثار چیمہ کی سچی باتوں پر اس اجلاس کے ارکان نے خوب ڈیسک بجائے۔ ملتان سے ایم این اے شیخ فیاض نے بھی نثار چیمہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ لیگی اراکین خواجہ آصف کے ناقد ہیں اور بیچارے خواجہ آصف یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ نظریے کی سودے بازی تو خود ان کے لیڈر نے کی ہے۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے نواز شریف اور شہباز شریف کا الگ الگ موقف ہے یا مریم نواز کسی الگ انقلابی خیال کی حامل ہیں جو پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے رہی ہیں، عملی طور پر ایسا کچھ نہیں، اگر کچھ ہوتا تو نظر آ جاتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف اور ن لیگ نے یہ سب ہی کرنا تھا تو اتنی ہزیمتیں اٹھانے کی ضرورت کیا تھی؟ لوگوں کو آئین اور سویلین بالادستی کے نعروں سے دھوکا دینے کا مقصد کیا تھا؟ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اس سارے معاملے پر نواز شریف نے بالآخر وہ سب کچھ کیا جو انہیں کسی زمانے سے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کہتے آ رہے تھے۔
چوہدری نثارعلی خان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی بات پر ڈٹے ہوئے تھے اور انہوں نے اس خاص وقت میں مریم نواز پر بھی تنقید کی تھی۔ اب شریف خاندان کو چوہدری نثارعلی خان سے واقعی معافی مانگ لینی چاہیے اور انہیں عزت دے کر واپس لانا چاہیے۔
سچ یہ ہے کہ آئین، جمہوریت اور سویلین بالا دستی کے فلسفے کے پیش نظر کئی صحافیوں نے بھی اس وقت نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت کی۔
ن لیگ اپنے فیصلوں کی روشنی میں کہاں کھڑی ہے، یہ موضوع تاریخ کے طالبعلموں کے لیے تحقیق کا ایک بڑا میدان ہے۔ جمہوریت پسند حلقوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو بے نقاب کرنے اور اس وقت کمزوز اور زیر عتاب نواز شریف اور مریم نواز پر طاقتوروں کے ہلے کو غلط قرار دیا لیکن اب ان رہنماؤں نے یہ نظریات عملاً مسترد کر دیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ سیاست میں واقعی ’سب کچھ‘ جائز ہوتا ہے۔