Time 11 جنوری ، 2020
پاکستان

نواز شریف نے ایسا کیوں کیا؟

سابق وزیراعظم نواز شریف— فوٹو فائل

اس بات کو ماننے میں کوئی باک نہیں کہ جو کچھ مسلم لیگ ن نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں کیا اس سے ووٹ کے تقدس کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا ہے۔ جو کچھ ہوا اس سے سول سپریمیسی کا پردہ چاک ہو گیا اور جو ڈھول مسلم لیگ ن نے کئی برسوں پیٹا تھا وہ بیچ چوراہے میں پھٹ گیا۔ اس تاریخی یوٹرن کے بعد مسلم لیگ ن کے ورکرز اور کارکنوں نے جو قیادت کی درگت بنائی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ عوام کے ذہنوں میں تو سرایت کر گیا ہے لیکن سیاسی جماعتیں ابھی اس سے پوری طرح متفق نہیں ہیں۔

 اس پر بہت بات ہو چکی ہے کہ نواز شریف نے سب کچھ جانتے بوجھتے یہ قدم کیوں اٹھایا ہے؟ اس سے سول سپریمیسی کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور اب ووٹ کی عزت کیسے مٹی میں ملی؟ میں اس پر مزِید بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس شرمناک فیصلے کو کسی طرح مصلحت کا لبادہ نہیں پہنانا چاہتا۔

 یہ جو ہوا ہے جمہوریت کی رو سے عین غلط ہوا ہے۔ اس کے مضمرات آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ میں صرف اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ نواز شریف نے جانتے بوجھتے ایسا کیوں کیا؟ اب پارٹی قائدین لاکھ تاویلیں پیش کریں لیکن یہ فیصلہ بہر حال نواز شریف کا تھا اور باقی پارٹی بھی اس پر سر تسلیم خم کر چپ چاپ بیانیےکا جنازہ کاندھوں پراٹھائے سسک رہی ہے۔

میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نواز شریف نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے؟ جو تاویلات پارٹی قیادت یا تجزیہ کرام کی طرف سے پیش کی جا رہی ہیں وہ اس قدر بودی ہیں کہ ان پر یقین نہیں ہو رہا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے حکومت میں حصہ لینے کے لالچ میں یہ ڈیل کرلی ہے۔ وہ بات اس لئے غلط ہے کہ یہ وقت ڈیل کا نہیں تھا۔ ڈیل کا وقت الیکشن سے پہلے تھا اور اگر اس وقت اسی طرح کی سوچ رکھی جاتی تو آج نواز شریف کی ہی حکومت ہوتی۔

ڈیل کا وقت وہ تھا جب بیگم کلثوم نواز شدید علیل تھیں اور نواز شریف پر زور ڈالا جا رہا تھا کہ وہ کسی طرح لندن رک جائیں لیکن اس وقت بھی نواز شریف ڈیل سے منکر رہے ۔ اب تو موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور نا اہلیت کھل کر سامنے آ رہی تھی ، اب تو پی ٹی آئی کے سپورٹر آہ و بکا کر رہے تھے تو ایسے میں جب مخالف خود ہی زیر دام آ رہا تھا تو اس اقدام کی کیا ضرورت تھی؟

جو مبصرین یہ بتاتے ہیں کہ مریم نواز کی مشکلات نے نواز شریف کو اس فیصلے پر مجبور کیا وہ بھی غلط ہیں۔ اس لئےکہ ہم نے دیکھا ہے مریم نواز جب سے سیاسی منظر نامے پر آئی ہیں وہ نواز شریف کی کمزوری نہیں طاقت بنی ہیں۔ نواز شریف کے بیانیے کا بوجھ انہوں نے اپنے کاندھے پر اٹھا یا ہے اور باپ کے ساتھ ہمیشہ ہم رکاب رہی ہیں۔ یہ کہنا درست ہے کہ مریم نواز نے ایک قدم آگے بڑھ کر نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی دلیر بیٹی کے ہوتے ہوئے اتنا بزدلانہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پارٹی نواز شریف کے ساتھ نہیں تھی وہ بھی غلط ہیں اس لئے کہ شہباز شریف کا طرز سیاست چاہے کچھ بھی ہو وہ نواز شریف کا حکم اب بھی ٹال نہیں سکتے۔ خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ جیسے لوگوں سے نواز شریف کے تعلقات نصف صدی سے زیادہ پرانے ہیں یہ لوگ اگر چاہیں بھی تو نواز شریف کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ ان کے لئےآج بھی سیاست کی معراج نواز شریف کی تائید ہے تو ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے ووٹ کی عزت کو خاک میں کیوں ملایا گیا؟

جو تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ ن لیگ میں موجود ڈیل گروپ نواز شریف پر حاوی ہو گیا وہ اس لحاظ سے غلط ہیں کہ اسطرح کا گروپ ہمیشہ سے ن لیگ کا حصہ رہا ہے۔ نواز شریف ان سے اپنے مزاج کے مطابق نمٹتے رہے ہیں۔ وہ ضدی آدمی ہیں اگر اپنی ضد پر آجائیں تو پھر کسی کی نہیں سنتے ۔ مبینہ ڈیل گروپ نوازشریف پر کبھی حاوی نہیں ہو سکا ۔ پارٹی میں حتمی فیصلہ ہمیشہ نواز شریف کا ہی رہا ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اپنے ساتھیوں کے مصائب کی وجہ سے مجبور ہو گئے وہ اس طرح غلط ہیں کہ انہیں شاہد خاقان اور سعد رفیق جیسے دلیر ساتھی ملے ہیں جو اپنے مقصد پر ڈٹے رہنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ انکو نہ جیل خوفزدہ کرتی ہے نہ مصائب سے وہ پریشان ہوتے ہیں۔ یہ مخلص کارکن نواز شریف کی طاقت تو بن سکتے ہیں مگر کمزوری نہیں۔

یہ تجزیہ بھی غلط ہے نوازشریف کو کارکنوں کے رد عمل کا اندازہ نہیں تھا اور وہ اسے ننانوے والی جماعت سمجھ رہے تھے ۔ یہ بات اس لئےغلط ہے کہ نواز شریف نے خود اس’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کا بیج رکھا۔ وہ پرانے سیاستدان ہیں انہیں عوامی ردعمل کا بہت اچھی طرح اندازہ تھا۔ وہ اپنے کارکنوں کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تو پھر جانتے بوجھتے انہوں نے اپنے کارکنوں کو مایوس کیوں کیا؟ اپنے بیانیے کی سنہری فصل کو خود ہی کیوں آگ لگا دی؟

میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ کوئی بھی شخص نواز شریف کی اس موجودہ منطق کو نہیں سمجھ پایا، لیکن بات کو ایک مفروضے پر ختم کرتا ہوں ۔ فرض کریں اگر امسال جون کے اختتام تک ملک میں صاف، شفاف اور منصفانہ ری الیکشن ہوں، انتخابی ترامیم ہوں، ایک منتخب حکومت برسر اقتدار آئے، حالیہ نا اہل حکومت سے نجات ملے، موجودہ معاشی بدحالی سے ہم نکلیں، لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، گورننس میں بہتری ہو، ترقیاتی منصوبے شروع ہوں،  بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخ کم ہوں، ڈالر کی قیمت میں کمی آئے، کاروبار کے مواقع پیدا ہوں اور کاروباری حضرات کا اعتماد بحال ہو، اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہو، کاروبار حکومت سکون سے چلے، بین الاقوامی سطح پر ہونے والی ہزیمت کا سلسلہ ختم ہو، انتقام کی سیاست کا خاتمہ ہو تو کیا ان اقدامات سے جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے؟ کیا یہ سودا مہنگا ہے؟

آخر میں یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اگر یہ مفروضہ جات حقیقت بن گئے تو یقین مانیے اس ڈیل میں سارا نقصان نواز شریف کو اور سارا فائدہ پاکستان کو ہوا ہے۔

مزید خبریں :