وائرل

فوٹو: فائل

شدید سردی میں ایک تھرتھراتے اور کانپتے بچے کی ویڈیو شاید ہی کسی سوشل میڈیا یوزر نے نہ دیکھی ہو، یہ بچہ سڑک کنارے، برف کے اندر جوتے پالش کرنے کا سامان لیے بیٹھا، اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی کمانے نکلا تھا لیکن سردی کی شدت برداشت نہ ہونے کی وجہ سے کونے میں گھس کر کانپنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔

 جب ویڈیو منظرِعام پر آئی تو ہم سب نے افسوس اور غصے کا اظہار کیا، میڈیا پر بھی بات چلی اور متعدد لوگوں نے اس کی مدد بھی کرنا چاہی، پِھر حکومتِ بلوچستان کی طرف سے بیان آیا کہ اِس بچے کی ذمہ داری حکومت لے گی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اس بچے سے ملاقات کی اور اس کو کچھ پیسے اور راشن بھی دیا۔ بعد میں سوشل میڈیا پر اس بچے کی اسکول یونیفارم میں بھی تصویریں سامنے آئیں اور ایسا لگنے لگا کہ شاید اس کا خواب پُورا ہو گیا مگر یہ کالم اس بچے کے بارے میں نہیں، یہ ہمارے بارے میں ہے۔

بچے کو سڑک سے اسکول تک پہنچانے کی کامیابی پر شاید ہم سب نے بڑی خوشی محسوس کی کہ ہم نے اور ہمارے سوشل میڈیا نے اِس بچے کی زندگی بدل دی مگر اِس بچے کا قصہ منفرد نہیں ہے۔

پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔ ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے ایسے ہیں جو چائلڈ لیبر میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی عمر 10سال سے کم ہے، تو اِس طرح کے بچوں کا اس حالت میں ہونا، نہ تو ہمیں حیران کرنا چاہیے نہ ہی پریشان۔

یہ ہماری کل آبادی کا کم از کم 5فیصد ہیں۔ ہر 100پاکستانی بچوں میں سے 10بچے کم و بیش اسی طرح کے حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔ اُس دن کتنے لوگ اس سڑک پر سے گزرے ہوں گے جنہوں نے اس بچے کو کانپتے ہوئے دیکھا ہوگا، ہم خود بھی روز کتنے ہی ایسے بچوں کو دیکھتے ہیں لیکن ہمارے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 میں نہیں جانتا کہ وہ ویڈیو کس نے بنائی اور یہ کہ جس کسی نے بھی بنائی، خود اس نے اِس بچے کی مدد کی یا نہیں، لیکن عام فہم بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی کو اِس طرح سڑک کنارے تڑپتے ہوئے دیکھیں تو آپ پہلے اس کی مدد کریں گے یا اپنا موبائل نکال کر اس کی ویڈیو بنائیں گے؟

یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص ویڈیو بنائے وہ اِس سے بڑھ کر کچھ کرنے کی استطاعت ہی نہ رکھتا ہو۔ تاہم سوشل میڈیا پر جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو سب حرکت میں آگئے۔ سب نے سوچا کہ یہ کیسے ہو گیا ہے، ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اِس طرح کے کئی بچے ہیں لیکن ہم نے پروا تب کی جب وڈیو سوشل میڈیا پر نظر آئی۔ سائیکالوجی میں اِس کو کونٹیکسچوئل پرابلم (سیاق و سباق کا مسئلہ) کہا جاتا ہے۔ چونکہ سڑک پر ہم عام طور پر بےبسی دیکھنے کے عادی ہیں تو اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن سوشل میڈیا پر ہم ویسے بھی اپنے آپ کو بہتر سے بہترین دیکھنا چاہتے ہیں، (اس پر از راہِ تفنن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی پروفائل پکچرز دیکھنے کے بعد انہیں اصل دنیا میں پہچانا نہیں جاتا) اِس وجہ سے یہ مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے اور توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔

اس لیے حکومت بھی جلد حرکت میں آتی ہے اور اِس پر کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دن کوئٹہ شہر میں وہ ایک ہی بچہ تھا جو روزی کی تلاش میں اتنی سردی میں باہر آیا تھا؟ عین ممکن ہے کہ اس سڑک پر نہیں تو اس کے ساتھ کسی سڑک پر ایک نہیں کئی اور بچے ہوں۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ہماری آبادی کا 5فیصد ایسے بچوں پر ہی مشتمل ہے۔ جب حکومتی اہلکار اس بچے کو تلاش کر رہے تھے تو کیا ان کو ایسے اور بچے نہیں ملے ہوں گے؟ لیکن یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ تمام تر توجہ اس ایک بچے پر تھی۔

میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ اس بچے کی مدد نہیں کرنی چاہئے یا یہ کہ یہ بچہ شدید مشکل میں نہیں تھا، لیکن مدعا یہ ہے کہ اس ایک بچے کو دیکھ کر ہمیں صرف اس کی مدد کرنے تک اپنے آپ کو محدود نہیں کرنا چاہیے لیکن سوشل میڈیا پر وائرل چیز دیکھنے کے بعد ہم سب کچھ یہی کرتے ہیں۔

جس جس نے اس بچے کے مدد کی، اس کے بارے میں سوچا اور ہمدردی کا احساس کیا، اس نے یقیناً ٹھیک کیا، ہم سب کے تاثرات ایسے ہی تھے لیکن چونکہ ہم سوشل میڈیا پر عام طور پر لوگوں کو ایسی حالت میں نہیں دیکھتے اس لیے ہم فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں مگر ہم سب کو اور حکومت کو ان تمام باقی بچوں کا بھی سوچنا چاہیے جو سوشل میڈیا پر وائرل تو نہیں ہوئے لیکن ان کی اذیت بھی اس بچے سے کم نہیں ہے۔

مزید خبریں :