مگر پنجاب محروم رہا

اگر سندھ طاس معاہدے پر عمل ہو جاتا تو پنجاب کے وہ علاقے جو راوی، ستلج اور بیاس کی بندش کے باعث پانی سے محروم ہوئے تھے، ان علاقوں تک نہری پانی پہنچ جاتا—فوٹو فائل

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سندھ طاس معاہدے پر عمل ہو جاتا، پنجاب کے وہ علاقے جو راوی، ستلج اور بیاس کی بندش کے باعث پانی سے محروم ہوئے تھے، ان علاقوں تک نہری پانی پہنچ جاتا تو یقیناً پنجاب ہی کا نہیں پورے پاکستان کا بھلا ہوتا۔ زیادہ پیداوار کے باعث خوشحالی آتی۔

اتنا اناج ہوتا کہ پاکستان کی اپنی ضروریات بھی پوری ہوتیں اور ہمارا ملک کئی دوسرے ملکوں کو اناج فراہم کرنے والا ملک بن جاتا۔ افسوس ہم نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ سندھ طاس معاہدے کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنا کر نہریں نکالی جائیں گی۔

محروم علاقوں کو سیراب کیا جائے گا مگر ہمارے ہاں عقل کے چند اندھوں نے کالاباغ ڈیم کو متنازع بنا دیا۔ اپنی سیاسی دکانیں چمکا لیں، ملک بنجر ہو گیا، اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے ملک کا نقصان کر دیا۔ چند گھرانے تو امیر ہو گئے مگر عوام کی اکثریت غریب ہو گئی۔

اگر کالاباغ ڈیم بن جاتا تو سندھ کو 40لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملتا۔ اس پانی سے میرا پیارا سندھ مزید خوشحال ہوتا، سندھ کی زمینوں میں ہریالی اور بڑھتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے دور حکومت میں اس سلسلے میں کوشش بھی کی۔

انہوں نے ڈیم کا نام بدلنے کی بات بھی کی تھی، محترمہ شہید کا خیال تھا کہ اس کا نام انڈس ڈیم رکھ دیا جائے، اس پر انہوں نے اختلافات بھی تقریباً ختم کروا دیئے تھے مگر پھر عملدرآمد سے پہلے ہی ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ سندھ پیپلز پارٹی کا مرکز ہے۔

اب بھی پیپلز پارٹی کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دیئے ہوئے نام انڈس ڈیم کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ سندھ ہی کو ہے۔

بلوچستان کی محرومیوں میں سب سے بڑا کردار وہاں کے نوابوں سرداروں کا ہے، وہی تو حکمران رہے، جیسے پنجاب پر عوام سے لاتعلق لوگ حکمران رہے۔ سو بلوچستان کی موجودہ حکومت کو بھی اس ڈیم کی حمایت اس لئے کرنی چاہئے کہ پندرہ لاکھ ایکڑ فٹ پانی سے بلوچستان میں خوشحالی آئے گی۔

رہی بات صوبہ خیبر پختونخوا کی تو واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کالاباغ ڈیم کے سب سے بڑے حامی رہے ہیں۔

ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا ہی سے تھا چونکہ اس صوبے میں زیادہ تر حکمران چارسدہ، صوابی، مردان اور نوشہرہ سے رہے ہیں، ان چار اضلاع سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کا یہ خیال ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو جنوبی اضلاع کی لاکھوں ایکڑ اراضی آباد ہو جائے گی، یعنی کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی زمینوں کی خوشحالی کا مطلب ہے کہ وہ لوگ ہمارے برابر ہو جائیں گے۔

وہاں کی خوشحالی کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے مقابلے پر آ جائیں گے یا ہم سے آگے بڑھ جائیں گے۔ ایسی سوچ بالکل علاقائی اور منفی سوچ ہے۔

اس سوچ سے آگے نکل کر خیبر پختونخوا کی حکومت کو ڈیم کی حمایت کرنی چاہئے۔ بیس لاکھ ایکڑ فٹ پانی سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔

اس تمام صورتحال میں راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بند ہونے سے بنجر ہونے والے علاقوں کا کیا قصور ہے، یہ ڈیم بن جاتا تو ان کی محرومی بھی دور ہو جاتی۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، نارووال، شیخوپورہ، گجرات، منڈی بہائو الدین، حافظ آباد، لاہور، قصور، پاکپتن، وہاڑی، بہاولنگر، بہاولپور، لیہ، بھکر اور رحیم یار خان سمیت دیگر اضلاع پانی کو نہ ترستے۔

حکومت پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں ان علاقوں کو پانی فراہم کرنا چاہئے۔یہ ان علاقوں کا حق ہے۔ پاکپتن اور بہاولنگر پانی کو ترستے ہیں اور ان اضلاع کے سامنے بھارت کے اضلاع گنگا نگر اور بیکانیر سرسبز و شاداب نظر آتے ہیں۔

کالاباغ ڈیم سے جو پانی ملنا تھا، اب وہ سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ڈیم بن جاتا تو پورا ملک سیراب ہوتا، سب صوبے مستفید ہوتے، ہمارے لوگ مہنگی بجلی کو بھی نہ روتے کیونکہ اس ڈیم سے 3600میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی اور ہمیں ڈھائی روپے یونٹ بجلی ملتی۔

ذرا منصوبے کو دیکھئے جسے دنیا بھر کے آبی ماہرین کارآمد ترین قرار دیتے ہیں، یہ ڈیم کالاباغ شہر سے کچھ فاصلے پر پیر پہائی نامی گائوں کے قریب بننا تھا جہاں قدرتی طور پر پہاڑوں کے درمیان پیالہ نما جگہ بنی ہوئی ہے، یہ بہت ہی کم وقت میں مکمل ہونے والا منصوبہ تھا۔

پہلے بیس برس میں اس کی تعمیر کی لاگت کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو اب پندرہ ارب ڈالر سے زائد ہو چکا ہے۔ یہاں ایک اور تلخ حقیقت کا تذکرہ کرتا چلوں کہ ڈیم کی تعمیر کے لئے سب کچھ تیار تھا، ملازمین کے لئے رہائشی کالونی بھی بن چکی تھی جو اب کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے۔

کروڑوں کی قیمتی مشینری زنگ آلود ہو رہی ہے، دس ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں مگر بے کار بیٹھے ہیں، اس ڈیم سے پچاس ہزار لوگوں کو روزگار ملنا تھا، ہم یہ ڈیم نہ بنا کر اٹھارہ ارب ڈالر سے زائد کا سالانہ نقصان کر رہے ہیں۔

ہر سال ہم 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کر دیتے ہیں۔ سیاسی حکومتیں تو ایک طرف، آمرانہ ادوار میں بھی کسی کو اس ڈیم کی تعمیر کا خیال نہ آیا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے ملک کا سوچیں، اللہ کا نام لے کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کریں، اس سے پورے ملک کو فائدہ ہو گا۔

اگرچہ سندھ کو فائدہ زیادہ ہو گا مگر سندھ بھی تو ہمارا اپنا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے ہمارے ملک کے بنجر علاقے سرسبز و شاداب ہو جائیں گے، ہر طرف خوشحالی ہو گی، پنجاب کے علاقوں میں پیداوار زیادہ ہو گی، پنجاب بڑے اناج گھر کے طور پر ابھرے گا مگر یہ سب کچھ کرنے کیلئے دلوں کو وسیع کرنا ہو گا، باقی آئندہ۔ نوجوان شاعر عمران تنہا کا شعر حسب ِ حال ہے کہ ؎

اور کچھ بھی نہیں کیا تنہاؔ

ہم نے شام و سحر محبت کی

مزید خبریں :