23 فروری ، 2020
اس وقت پاکستان کی معاشی صورت حال ایسی ہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل ہونے کے خطرے سے نمٹنے اور بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے سے نبرد آزما ہونے میں الجھی ہوئی ہے۔
اس کے پاس اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق پالیسیاں بنانے کی مالیاتی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کے عوام کی اکثریت افراطِ زر، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے سے بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ان پر زندگی تنگ ہو گئی ہے۔ اس معاشی صورتحال میں بھی حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ اقدام کر رہی ہے۔ کیا ان اقدامات سے عوام کو کچھ ریلیف ملے گا اور بحرانی کیفیت سے معیشت کو نکالنے میں کوئی مدد مل سکے گی؟
وفاقی حکومت کے زیادہ تر اقدامات غریب آبادی کو فوری ریلیف دینے اور سیاسی مقبولیت حاصل کرنے والے ہیں۔ حکومت نے ایک خیراتی ادارے کے ساتھ مل کر غریب ترین افراد کو مفت کھانا فراہم کرنے کے پروگرام کا وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں بڑے اہتمام کے ساتھ افتتاح کرا دیا۔ یہ پروگرام مذکورہ خیراتی ادارہ پہلے ہی چلا رہا تھا۔
اس میں صرف حکومت کی معمولی مالی معاونت شامل ہوگی، وہ بھی اگر ہوئی تو۔ پنجاب میں فٹ پاتھ پر سونے والوں کیلئے عارضی پناہ گاہیں بنائی گئیں، جہاں انہیں کھانا بھی ملے گا اور سونے کی جگہ بھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے احساس آمدن پروگرام شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جس کیلئے 15ارب روپے مختص کیے ہیں۔ پروگرام کے تحت 60فیصد خواتین اور 30فیصد نوجوانوں کو آمدن کے مواقع اور کاروبار کیلئے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں یہ پروگرام 23اضلاع کی 375یونین کونسلز میں شروع کیا جائے گا، جس کے بعد اسے پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔
مذکورہ بالا پروگرامز سے ملک کی بہت بڑی غریب ترین آبادی کے ایک معمولی حصے کو تھوڑا سا ریلیف ملے گا۔ یہ ریلیف مستقل بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی ان پروگرامز کو مستقل طور پر جاری رکھنا ممکن ہے۔ زیادہ تر غریب آبادی کو ان سے فائدہ نہیں ہوگا۔ جن کو فائدہ ہوگا، وہ ملک کے کارگر شہری بننے یا پیداواری سرگرمیوں کا حصہ بننے کے بجائے طفیلی اور معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے۔
زیادہ تر لوگ مجبوری کے باعث اس طفیلی گروہ میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے۔ احساس آمدن پروگرامز جیسے پہلے بھی کئی پروگرامز شروع کیے گئے، جن کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ صرف پیسہ ضائع ہوا اور یہ پیسہ سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو نواز نے کیلئے خرچ کیا۔
اشیائے ضرورت خصوصاً خوراک کی اشیاکی قیمتوں میں بےلگام اضافے سے نمٹنے کیلئے حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کیلئے اربوں روپے مختص کیے ہیں اور بنیادی ضرورت کی چیزیں کنٹرولڈ ریٹ پر لوگوں کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام سے بھی صرف آبادی کو کچھ وقت کیلئے ریلیف ملے گا کیونکہ ملک بھر میں 59سو یوٹیلٹی اسٹورز اور اس کی فرنچائز ہوں گی۔
یہ سب شہری علاقوں میں ہیں۔ دیہی آبادی اس ریلیف سے زیادہ تر محروم رہے گی۔ شہری آبادی بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی کیونکہ آٹا، گھی اور چینی کنٹرولڈ ریٹ پر لینے والی اکثریتی آبادی کی اتنی قوتِ خرید نہیں ہے کہ وہ پندرہ دن یا پورے ماہ کا راشن ایک ساتھ لے سکے۔ زیادہ تر لوگ روزانہ کی بنیاد پر ضرورت کے مطابق پرچون میں خریداری کرتے ہیں جہاں کنٹرولڈ ریٹ نہیں ہیں۔
معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی سیاست سے کس طرح نمٹتی ہے، یہ بھی ایک اہم بات ہے لیکن عوام کی بڑھتی ہوئی تکالیف تشویشناک ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے جو اقدامات کیے گئے، انہیں مستقل طور پر جاری رکھنا ناممکن ہے اور ان سے مجموعی طور پر معیشت کی ترقی کے حوالے سے بھی کوئی معاونت نہیں ملے گی۔ اصل مسائل جوں کے توں ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری میں اضافہ ہے۔ نہ صرف روزگار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ سرکاری اور نجی شعبے کے اداروں میں بڑے پیمانے پر چھانٹیاں اور برطرفیاں ہو رہی ہیں۔ زیادہ تر اداروں میں ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں مل رہی ہیں۔ جنہیں مل رہی ہیں، ان کی آمدنی افراطِ زر اور مہنگائی کی وجہ سے بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مسلسل ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔ دہاڑی والے مزدور بھی بڑے پیمانے پر روزگار کے حصول سے محروم ہیں۔ بیکار اور طفیلی لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ان حالات سے نمٹنے کیلئے حکومت کو اپنی پالیسیوں پر فوری نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور انہیں پیداواری سرگرمیوں کا حصہ بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر فوری طور پر خود کچھ نہیں کرسکتی تو نجی شعبے کو اپنی معاشی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کیلئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے، جن سے نجی شعبے کا خوف ختم ہو اور ان کا حکومت اور اس کے اداروں پر اعتماد دوبارہ بحال ہو۔ اس کیلئے سیاسی بےیقینی کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا اور سیاسی تصادم سے گریز کرنا ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔