23 فروری ، 2020
قیام پاکستان تا امروز چونکہ پاکستان میں جمہوریت اپنی روح کےمطابق نافذ نہیں ہو سکی اس لئے کسی بھی حکومت سے متعلق کبھی بھی یقین سے یہ نہیں کہا جا سکا کہ یہ اپنی آئینی مدت مکمل کر پائے گی۔
آزادی کے فوری بعد حکومتوں کی توڑ پھوڑ کی ایک طربیہ و طویل داستان ہے، 11ستمبر 1948کو بانی پاکستان کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنا دئیے گئے، یہ منصب چونکہ طاقت کا اصل منبع تھا اس لئے 16اکتوبر 1951ء کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے فوری بعد خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل سے ہٹاکر وزیراعظم اور بیورو کریٹ ملک غلام محمد گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
اپریل 1953ءمیں گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا، محمد علی بوگرہ قانون ساز اسمبلی کے ذریعے 1935ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتے تھے جس کے ذریعے گورنر جنرل آئے روز حکومتوں کو برطرف کرنے پر کمربستہ تھے۔
(دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ایکٹ انگریز نے بنایا لیکن اُس نے کبھی اسے برطرفی کیلئے استعمال نہیں کیا) خیر ایک جمہوری طرزِ حکمرانی کے خوف سے اعزازی میجر جنرل اور وزیر دفاع اسکندر مرزا نے پہلے قائم قام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور 1955ء میں صدر پاکستان بن کر براہِ راست حکومتی جوڑ توڑ میں شروع کر دی۔
انہوں نے اگست 1955ء میں چوہدری محمد علی کو امریکا سے بلاکر ملک کا وزیراعظم مقرر کیا، ستمبر 1956ء میں ایوان صدر نے عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی کو اپنی اس تجربہ گاہ میں وزیراعظم بنوایا اور استعمال کرکے چلتا کر دیا۔
اکتوبر 1957ء سے دسمبر 1957ء تک تین ماہ کیلئے ابراہیم اسماعیل چند ریگر اور دسمبر 1957ء سے اکتوبر 1958ء تک 10ماہ کیلئے فیروز خان نون بھی وزیراعظم رہے۔ 7اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لگا کر بالآخر اپنے عزائم کو عملی شکل دیدی لیکن 20 روز بعد ہی انہیں اقتدار جنرل ایوب خان کے حوالے کرکے لندن میں اپنی باقی زندگی جلاوطنی میں بسر کرنا پڑی۔
انگریز کے لے پالک، خان بہادروں و جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی کھوٹے سکوں نے اوائل آزادی سول و فوجی بیورو کریسی کے ساتھ ملکر ملک و ملت پر اقتدار کی ترجیح کا ایسا شرمناک ڈرامہ شروع کیا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ’’اتنی جلدی تو میں دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکمران بدل جاتے ہیں‘‘۔
برطانوی راج سے آزادی لیتے وقت پاکستان و بھارت کی ریاستیں اقتصادی طور پر ایک سی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ان میں ہر میدان میں فرق بڑھا، دوسری طرف ہمارے آس پاس برطانیہ ہی سے آزادی لینے والے ممالک ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔
کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ انگریز اگر دودھ ،دہی خود کھاتا تھا تو لسی تو رعایا کو بھی مل جاتی تھی لیکن آج آزاد پاکستان میں 95 فیصد عوام 5 فیصد خواص کے استحصال کے ایسے شکار ہیں کہ انہیں لسی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔
جاگیردارانہ سماج سے وابستہ ان کھوٹے سکوں نے سب سے کاری وار نظام مملکت پر کیا، برس ہا برس آمریت مسلط رہی، وقفے وقفے سے ایسی جمہوریت آئی جو پابہ جولاں رہی، خلاصہ یہ ہے کہ عوامی فلاح کے نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا، یہ سب کچھ سامراجی اشیربا دسے ہوتا رہا۔
عہدِ موجود میں اگرچہ ہم آئی ایم ایف جیسے اداروں کی ناراضی مول لینے کی سکت نہیں رکھتے لیکن سامراجی کردار اب ماضی کی طرح موثر نہیں، یہ اور بات ہے کہ اب یہاں دوست ممالک کا ’برادرانہ کردار اہم تر‘ ہو گیا ہے۔
کہنا یہ ہے کہ مستحکم نظام نہ ہونے کی وجہ سے حکومتوں کی پائیداری کس طرح ممکن ہے؟ کون نہیں جانتا کہ 2008سے 2018کے عشرے میں حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب تو ہوئیں لیکن اس کیلئے وہ جس مصلحت سے گزریں، اُس کا رنگ بعد میں عمران خان کی صورت میں ایسا نمایاں ہوا کہ اب مسلم لیگ و پیپلز پارٹی اپنی کمزوریوں کے باوصف مستحکم جمہوریت کیلئے کوئی نتیجہ خیز کردار ادا کرنے سے عاری ہو چکی ہیں۔
توسیع وغیرہ جیسے معاملات سامنے کی بات ہیں، ان دنوں پھر حکومت جانے کے حوالے سے مختلف فارمولے زیر گردش ہیں، ایسی اُمید افزا افواہوں کا جہاں مقصد مہنگائی، بھوک، بیماری سے تھکے ہارے عوام میں نظام کہن مخالف سوچ کی بیخ کنی ہوتا ہے تو وہاں رواں حکومت کو بھی دباؤ میں رکھنا ہوتا ہے۔
بنابریں اگر ایسی خبروں یا تجزیوں میں صداقت ہو بھی تو چونکہ یہ تبدیلی عوامی قوت کے بجائے جوڑ توڑ یعنی ڈیل کے ذریعے آئے گی تو ایسی تبدیلی سے بھلا کیسے ملک و ملت کی حالاتِ زار میں کسی جوہری تبدیلی کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔
اس طالبعلم کے خیال میں حکومتی تبدیلی کی خوش کن خبروں سے زیادہ پائیدار جمہوری نظام کیسے آئے، اس سوال پر غور کی ضرورت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔