27 فروری ، 2020
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ کسی جج یا وکیل کی کوئی جاسوسی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی۔
اسلام آباد بار کونسل میں تقریب سے خطاب میں وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ وکلا کی فلاح و بہبود اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر کام کیا جائے گا۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے حوالے سے ایک بار پھر وضاحت کی کہ کسی جج یا وکیل کی کوئی جاسوسی نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد 7 سے بڑھا کر 15 کرنی چاہیے اور تمام ججز کی تعیناتیاں کوٹہ سسٹم کے بجائے صرف میرٹ پر ہونی چاہئیں۔
ان کا کہناتھا کہ صوبائی تعصب کو ختم ہونا چاہیے، پنجاب میں یہ تعصب ختم ہو چکا ہے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا جج اگر کراچی شفٹ ہو تو اسے سندھ ہائی کورٹ بھی بھجوایا جاسکے، انگریز کے جس 100سال پرانے قانون پر ہم چل رہے ہیں وہ خود اس میں کتنی بار ترامیم کر چکا ہے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں ہے کہ اسلام آباد میں فیڈرل لاء یونیورسٹی ہونی چاہیے جس کے کیمپس چاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں ہوں،اسلام آباد ہائی کورٹ اسی سال شاہراہ دستور پر نئی بلڈنگ میں شفٹ ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وکالت مقدس پیشہ ہے اور اس میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس فوری واپس لیا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر قانون نےعدلیہ کو تقسیم کرنے کیلئے بدنیتی پر مبنی ریفرنس تیار کیا تھا، اس ریفرنس کے عوامل اور محرکات مکمل طور پر قوم پر آشکار ہو چکے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ عدلیہ کو تقسیم کرنے میں ناکامی کے بعد اب وفاقی وزیرِ قانون وکلاء برادری کو تقسیم کرنے پر عمل پیرا ہیں، سابق اٹارنی جنرل کا استعفیٰ اور نئے اٹارنی جنرل کا ریفرنس میں پیش ہونے سے انکار سازش کو بے نقاب کر رہے ہیں۔