آپ نادم ہے تجھے دام لانے والا

کونسی عدالت سے نیب میرشکیل الرحمٰن کو ناکردہ جرائم کی سزا دلوا ئے گی؟—فوٹو فائل

مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا میرشکیل الرحمٰن کی گرفتاری عمران خان کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہے تو میں اس سوال کا جواب’’ ہاں ‘‘میں دوں گا-

نیب نے جتنی گرفتاری کیں اس میں مین کردار وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر ،وزیر قانون فروغ نسیم اور بیورو کریسی کے لیڈر یعنی وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا رہا ہے۔شاہد خاقان عباسی اوراحسن اقبال کو رہا کرتے ہوئے نیب کے خلاف جو ریمارکس عدالت نے دیے وہ چہروں پر سیاہی تھوپ دینے اور کالک لگانے کے مترادف ہیں۔

ان میں سے ایک جملہ ہی کافی ہے ۔عدالت نے کہا ’’ایسا سلوک تو برطانیہ میں دہشت گردوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ‘‘۔نیب نےجتنے لوگوں کوگرفتار کیا ،ان میں سے اکثر کے خلاف مقدمات کمزور تھے ۔علیم خان رہا ہوئے تو ہفتوں سوچتے رہے کہ انہیں کس جرم میں اتنے دن قید میں رکھا گیا ۔

وہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ اس کی گرفتاری عمران خان کے خلاف ہونے والی کسی سازش کا نتیجہ تھی۔ سبطین خان کوجب باعزت بری کیا گیا توہم سب نے تحقیق کی کہ گرفتاری کاسبب کیا تھا۔ انہیں چار مہینے قید و بند کی صعوبتیں کیوں برداشت کرنا پڑیں کہ ان کی گرفتاری بھی اصل میں عمران خان کے کسی معاملے سے جڑی ہوئی تھی ۔سبطین خان کے سامنے سازش کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں ۔عمران خان کسی وقت انہیں بلا کر ان کے نام پوچھ سکتے ہیں ۔

اب آتے ہیں میر شکیل الرحمٰن کی طرف کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا۔ دراصل جب سے فردوس عاشق اعوان نے وزیر اطلاعات و نشریات کا منصب سنبھالا ہے وہ مسلسل اس کوشش میں تھیں کہ کسی طرح میڈیا اور حکومت کے درمیان جوجنگ چھڑ ی ہوئی ہے یہ ختم ہوجائے بلکہ میڈیا اور حکومت ایک پیج پر آجائیں ۔ بے شک عمران خان کی حکومت کی کامیابی کےلئے یہ بات انتہائی ضروری ہے مگرمیر جعفر وں اور میر صادقوں کی موجودگی میں ایسا کیسے ممکن ہے۔

آستین کے سانپوں نے عمران خان سے ہر وہ فیصلہ کرایا جس سے انہیں نقصان ہو سکتا تھا۔میڈیا کے چھ ارب روپے حکومت نے خواہ مخواہ روک کر رکھے ہوئے ہیں۔ابھی توقع ہونے لگی تھی کہ میڈیا اور حکومت کے درمیان ایک مثبت دور کا آغاز ہونے والا ہے تومیرشکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا۔یہ کوئی مقدمہ ہے ہی نہیں ۔34سال پہلے میر شکیل الرحمٰن نے ایک زمین جوہر ٹاؤن میں خریدی تھی 34سال پہلے اس کی کیا قیمت ہوگی آپ سب جانتے ہیں۔

34کے بعد اب یہ الزام لگا کر گرفتار کرنا کہ یہ زمین انہیں نواز شریف نےدی تھی ۔عجیب لگتا ہے اس پر ستم یہ کہ نیب کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت بھی موجودنہیں۔کیا یہ مذاق نہیں کہ اس کیس میں نیب نےسابق وزیراعظم نواز شریف کو 20 مارچ کو طلب کرلیا۔کون نہیں جانتا کہ وہ لندن میں ہیں حکومت انہیں واپس بلانے کےلئے برطانوی حکومت کو خط لکھتی پھرتی ہے ۔یعنی ان کے آنے کا کوئی امکان ہی نہیں ۔ایسی صورت حال میں کونسی عدالت سے نیب میرشکیل الرحمٰن کو ناکردہ جرائم کی سزا دلوا ئے گی ۔شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کواس کےلئے کوئی نئی عدالت قائم کرناپڑے گی جو قانون کو دیکھے بغیر لوگوں کوسزا دےسکے۔

پی ٹی آئی کے وزرا کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ میر شکیل الرحمٰن گرفتاری قطعاً درست نہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ میرے نزدیک گرفتاری درست عمل نہیں۔ اگر نیب سمجھتی تھی کہ وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے تو ان کا نام ای سی ایل میں ڈلوا دیتی۔باقی وزیر بھی دبے الفاظ میں ایسا ہی کہتے سنائی دے رہے ہیں۔ 

مجھے لگتا ہے وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی کسی وقت اس موضوع پر کھل کے بولنے والے ہیں ۔وزیر اطلاعات کو مجبور کیا گیا کہ وہ میرشکیل الرحمٰن کےخلاف پریس کانفرنس کریں۔ ان کے متعلق عمران خان کے سامنے پرنسپل سیکرٹری نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ میرے خلاف ساز ش کررہی ہیں۔ صرف وزیر اطلاعات پر کیا موقوف، اعظم خان کے خلاف تو پی ٹی آئی کے کارکن باقاعدہ احتجاجی تحریک شروع کرنے والے ہیں۔

جہاں تک میر شکیل الرحمٰن اور عمران خان کے مراسم کا معاملہ ہے اس میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے۔ کسی زمانے میں لڑائی ہوئی۔ دونوں دست و گریباں ہوئے۔ پھر صلح ہوئی، دوستی ہو گئی۔ بڑا عرصہ بڑے اچھے دوست رہے۔

ایک زمانےمیں ادارتی صفحے پر زیادہ لکھنے والے عمران خان کے خلاف تھے تو میر صاحب نے عمران خان سے کہا کہ آپ اپنا کوئی کالم نگار دے دیں۔ سو حفیظ اللہ نیازی کے نام قرعہ فال نکلا اور وہ جنگ میں کالم لکھنے لگے۔ 2013 کے انتخابات میں حفیظ اللہ نیازی اور عمران خان میں اختلافا ت ہو گئے ۔انہوں نے بھی عمران خان کے خلاف لکھنا شروع کردیا۔عمران خان نے میر شکیل الرحمٰن سے کہا کہ آپ حفیظ اللہ نیازی کا کالم بند کردیں مگر میر صاحب نے انکار کردیا کہ یہ صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے۔ یہاں سے پھر ناراضی شروع ہوئی۔ حکومت آنے کے بعد میرشکیل الرحمٰن کی ایک ملاقات وزیر اعظم سےہوئی۔

میر ابراہیم کی کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔معاملات حل ہونے کے قریب تھے۔ جیو اور جنگ کے اشتہارات بحال کرنےکا وعدہ کیا جاچکا تھا۔ برف پگھل چکی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی تعلق درست ہو چکے تھے ۔غلط فہمیاں ختم ہو چکی تھیں کہ اچانک میر شکیل الرحمٰن کو بڑے بھونڈے انداز میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس گرفتاری نے نیب کادامن ہی داغدار نہیں کیا۔ شہزاد سلیم جو ڈی جی نیب لاہور ہیں اور بڑے ایماندار آدمی ہیں ۔مجھے اُن کی طرف سے وضاحت کا انتظار رہے گا۔

آخر میں دوشعر،اگر سماعتوں میں سیسہ نہیں بھر گیا تو یقیناً دل پر دستک دیں گے۔

مانا میرے سورج کو نظر بند کیا ہے

کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے

جسموں کےلئے تم نے اٹھائی ہیں فصلیں

بتلائو کہ احساس کا در بند کیا ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔