Time 29 مارچ ، 2020
بلاگ

ایک نئے لیڈر کا جنم!

فوٹو: فائل

کورونا وائرس کی عالمی وبا کو روکنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کی حکومت نے جو اقدامات کیے، وہ قابلِ ستائش ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے وفاقی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں پر سبقت حاصل کر لی۔ دیگر حکومتوں نے ان کی تقلید کی اور سندھ حکومت جیسے اقدامات کرنے میں تاخیر کا یہ سبب بیان کیا کہ اس طرح کے اقدامات سے دہاڑی دار مزدور اور غریب لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔

اس منطق کے باوجود وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں کی حکومتوں نے ایک یا دو دن کی تاخیر سے وہی اقدامات کیے، جو سندھ حکومت کر چکی تھی۔

ایسی وبائی صورتحال میں کسی قسم کی حکمت عملی بنانے سے پہلے ہمارے پاس دنیا کے تجربات سامنے آ چکے تھے اور یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ جن ملکوں نے اس وبا کو معمولی جان کر لاک ڈاؤن، اجتماعات پر پابندی اور سماجی دوری کے دیگر اقدامات کرنے میں تاخیر کی، انہوں نے بہت نقصان اٹھایا۔ اٹلی اور اسپین خاص طور پر ہمارے سامنے ہیں۔

امریکا تو اب کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد کے حوالے سے چین کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ امریکہ بھی ان ملکوں میں شامل ہے، جن کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اقدامات کرنے میں تاخیر کی۔ 

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی اگرچہ اقدامات میں تھوڑی سی تاخیر کی لیکن اگر وہ پہل نہ کرتے تو شاید پاکستان میں کورونا کی روک تھام کے اقدامات میں مزید تاخیر ہوتی، جو زیادہ خطرناک ہوتی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا فیصلہ ان کے وژن اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔

پاکستان اگرچہ ایٹمی طاقت ہے لیکن اس کا شمار دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے، جس کی تقریباً 40فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سوشل سیکورٹی سسٹم یہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

امریکا اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ اور خوش حال ملکوں کی حکومتیں لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے اقدامات سے اس لیے گریز کر رہی تھیں کہ لوگ فاقوں کا شکار ہو جائیں گے اور معیشت تباہ ہو جائے گی۔

امریکی صدر ٹرمپ اب بھی اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ ایسٹر کے موقع پر امریکا کو کھول دیں گے کیونکہ مسلسل لاک ڈاؤن سے ان کے خیال کے مطابق لوگ وائرس سے زیادہ بھوک سے مر جائیں گے لیکن ابھی امریکا لاک ڈاؤن پر مجبور ہے۔

جہاں تک لاک ڈاؤن اور اجتماعات پر پابندی کے غریب طبقات پر اثرات کا تعلق ہے، ان سے نمٹنے کے لیے بھی حکومت سندھ نے اقدامات کرنے میں پہل کی ہے۔ صوبے کے مخیر حضرات اور فلاحی اداروں سے مل کر انہوں نے غریب لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے فوری طور پر اقدامات شروع کر دیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سب سے پہلے کورونا ایمرجنسی فنڈ قائم کیا۔

انہوں نے ضرورت مند افراد میں راشن کی تقسیم کے لیے بھی سب سے پہلے فنڈ مختص کیے۔ راشن کی تقسیم کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں اور تقسیم کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ کمیٹیوں میں فلاحی اداروں اور کمیونٹی کے نمائندہ افراد کو بھی شامل کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک کا ہیلتھ کیئر سسٹم کورونا وائرس کی وجہ سے ناکام نظر آیا۔

پاکستان کا ہیلتھ سسٹم ان سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اگر کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا تو پاکستان میں حالات کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ لاک ڈاؤن، اجتماعات پر پابندی اور سماجی دوری کے وزیراعلیٰ سندھ کے اقدامات سے وائرس کے اس پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی ہے، جو ایسے اقدامات نہ ہونے سے زیادہ پھیل سکتا تھا۔

اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پھیلاؤ کی شدت کم ہوئی ہے لیکن سندھ حکومت نے ہنگامی صورتحال اور امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کے ایکسپو سینٹر اور کچھ اسپتالوں میں جو انتظامات کیے ہیں، ویسے ہی انتظامات دیگر صوبوں میں نہیں ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو میڈیا میں بہت کم سراہا جاتا ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا میں حکومت سندھ کی کارکردگی میڈیا میں فوکس ہو گئی اور اس کا یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کے فیصلے زیادہ بہتر ہیں۔ اسی فوکس میں لوگوں کو یہ بھی نظر آنے لگا کہ سندھ میں ہیلتھ کیئر سسٹم ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں سے قدرے بہتر ہے۔

لوگوں کو اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی احساس ہوا کہ سندھ میں ترقیاتی کام بھی بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں اور یہاں کی گورننس میں خرابی کا عمومی تاثر درست نہیں ہے۔ لوگوں کو یہ بھی پتا چلا کہ عام حالات میں بھی سندھ کے وزیراعلیٰ زیادہ کام کرتے ہیں۔

ان کی انتظامی اور سیاسی اپروچ بہتر ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی، اس میں پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ کے سیاسی رویوں نے بھی لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ اس صورتحال میں اس امر کا بھی خوشگوار انکشاف ہوا کہ سید مراد علی شاہ کی شکل میں ایک نئے لیڈر نے جنم لیا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔