03 اپریل ، 2020
بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ جب موت زندگی کے دروازے پہ دستک دینے لگتی ہے تو انسان پر زندگی کا اصلی راز کھلتا ہے اور وہ راز ہے زندگی کا فانی ہونا، زندگی کی ناپائیداری جسے صوفیا فریبِ نظر کہتے ہیں۔
انسان کی بہت سی خوبیوں اور فطری اوصاف میں یہ صفت بھی شامل ہے کہ وہ زندگی کے نشے میں مست ہو کر یہ بھول جاتا ہے کہ آخر ایک دن اس نے دنیا سے بھی رخصت ہونا ہے اور رخصتی کے بعد زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ موت کبھی نہ مانگو لیکن موت کو یاد کرتے رہو۔ زندگی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے۔
نعمت سے فرار یا نعمت کے خاتمے کی آرزو کرنا نہ صرف منشائے الٰہی سے بغاوت یا انکار کے مترادف ہے بلکہ ناشکری کا اعلیٰ ترین ’’مقام‘‘ ہے۔ البتہ اگر انسان موت کو یاد کرتا رہے تو یہ یاد اسے بہت سے گناہوں سے باز رکھتی اور غلط راستوں پہ چلنے سے روکتی ہے۔
یہ الگ بات کہ بظاہر لوگ شکل و صورت سے خوفِ الٰہی میں مبتلا نظر آتے ہیں، لوگ اِنہیں حاجی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ مساجد کی رونق بڑھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن قبر کی یاد نہ اُنہیں ذخیرہ اندوزی سے روکتی ہے، نہ ناجائز منافع خوری سے، نہ جھوٹ بولنے سے اور نہ ہی دولت کی ہوس میں اندھا ہونے سے، اسی طرح قبر کی یاد انسانوں کو تکبر، قتل وغارت، بےحیائی، زنا، شراب نوشی اور دوسرے گناہوں سے بھی نہیں روکتی۔
اسی صورتحال کو دلوں پہ تالے اور مہریں لگنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جب قومیں اپنی قوت کے زعم پر کمزور قوموں اور انسانوں پر ظلم ڈھانے لگتی ہیں اور طاقتور سپر پاورز کے حکمران اپنے آپ کو دنیاوی خدا سمجھنے لگتے ہیں تو پھر ان کو ایک جھٹکا دے کر ان کی اصلی حیثیت اور حقیقی مقام دکھانا ضروری ہو جاتا ہے۔
جھٹکا کورونا کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، زلزلوں، قحط، سیلابوں وغیرہ کی شکل میں بھی ہمیں جھنجھوڑ سکتا ہے۔ اب اچانک کورونا کا عذاب اُترا ہے تو یہ عذاب دنیاوی طاقتوروں سے پوچھتا ہے کہاں ہے تمہارا وہ ایٹم بم جو قوموں اور ملکوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے، کہاں ہیں تمہارے وہ کیمیائی ہتھیار جو دنوں میں انسانوں کو نگل سکتے ہیں، کہاں ہیں وہ تمہارے سونے اور کرنسیوں کے انبار اور خزانے جن کے زور پر تم دوسری قوموں کو غلامی کی زنجیریں پہناتے ہو۔
اس ایٹم بم کا کیا فائدہ جو تمہارے دشمن ملکوں کو تو راکھ میں بدل سکتا ہے لیکن کورونا جیسے جان لیوا دشمن کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔ آج تمہارا دشمن تمہیں موت کےگھاٹ نہیں اتار رہا بلکہ ایک نظر نہ آنے والا دشمن تمہارے گھروں، محلات، جھونپڑیوں، اقتدار کے مراکز اور سیکورٹی میں گھرے ہوئے اہم ترین لوگوں تک کو نشانہ بنا رہا ہے۔
تمہاری بےبسی دیدنی اور قابلِ رحم ہے۔ اسے ایٹم بم سے کیوں نہیں مارتے پھر اس ایٹم بم کا کیا فائدہ جو تمہیں تمہارے خطرناک ترین دشمن سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ خدارا! اب تو سمجھو، اب تو اپنے باطن میں جھانکو اور سوچو کہ تم کیا ہو؟ تمہاری حیثیت کیا ہے، تمہارا تکبر، دولت اور فرعونیت محض پانی کے بلبلے ہیں، یہ فریب اور دھوکہ ہیں جنہوں نے تمہاری آنکھوں، دلوں اور ذہنوں پر پردے ڈال رکھے ہیں۔
تمہاری اصل حیثیت یہی ہے کہ کورونا کے ایک جرثومے نے تمہیں قدموں پر جھکا دیا ہے اور تمہیں موت کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ بےبسی؟ تم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ بات تمہارے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ تمہاری سائنسی ترقی، تمہارا ستاروں پر کمندیں ڈالنا، تمہارا ڈی این اے کے ذریعے انسانی جنس بدلنا، انسان کو قیامت تک زندہ رکھنے کے منصوبے بنانا اور لڑکی، لڑکے کی پیدائش پر کنٹرول حاصل کرکے اپنے آپ کو قدرت پر فتح حاصل کرنے کے دعوے اس قدر کھوکھلے ہیں کہ تمہاری سائنسی ترقی کورونا جیسے وائرس کے سامنے بےبس نظر آئے گی۔
یقیناً تم اس زعم میں مبتلا ہو کہ کورونا کے خاتمے کیلئے ویکسین بنا لو گے جس طرح تم نے ٹی بی، ٹائیفائیڈ، انفلوائنزا وغیرہ پر قابو پانے کیلئے بنائیں لیکن یاد رکھو جب کورونا کو فتح کر لو گے تو کوئی نئی قسم کاکورونا اُتر آئے گا جو تمہیں جھٹکا دے کر تمہاری اصل حیثیت یاد دلاتا رہے گا۔
کیونکہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ انسان ناشکرا، ضدی، مغرور اور شیطان کا دوست ہے۔ یقیناً انسانی بستیوں میں اللہ والے بھی ہیں اور اولیا کرام بھی لیکن جب آسمان سے عذاب اُترتا ہے تو وہ تمیز نہیں کرتا۔ نیک اعمال ہر شخص کا انفرادی سرمایہ ہیں جنہیں لیکر انسان اپنے خالقِ حقیقی کے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے۔
یہ مت سمجھو کہ عذاب صرف ان قوموں پر آنا تھا جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے جنہوں نے اپنے پیغمبروں، نبیوں کو جھٹلایا حتیٰ کہ انہیں قتل کر ڈالا۔ سورۃ الانفال کی آیت 3پڑھو تو شاید تمہاری عقل سے پردہ ہٹ جائے۔
اللہ پاک نے واضح کر دیا ہے کہ ’’نہیں ہے اللہ ایسا کہ عذاب دے ان کو جبکہ تمﷺ ان میں موجود ہو اور نہیں ہے اللہ عذاب دینے والا جبکہ وہ استغفار کرتے ہوں‘‘
گویا حضور نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد عذاب صرف استغفار کی صورت میں ٹل سکتا ہے۔ کیا ہم استغفار کرتے اور استغفار کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ استغفار محض زبان کا عمل نہیں، یہ ایک عبادت ہے جو انسان کو اپنے سانچے میں ڈھال لیتی اور اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے بیان کردہ وہ حدیث (ابنِ ماجہ، معجم طبرانی) یاد کرو جس کے مطابق خود نبی کریمﷺ نے پانچ چیزوں سے پناہ مانگی تھی اور ان کی موجودگی میں طاعون، ظالم حکمران، بارش، غیر قوم کی غلامی اور زلزلے جیسے عذابوں کی خبر دی تھی۔
علاج سنت ہے، حیلہ اور تدبیر حکمِ ربی اور حکمِ رسولﷺ ہے لیکن عذاب کی ویکسین اور علاج صرف استغفار میں پوشیدہ ہے اگر یہ شدید جھٹکا استغفار کا باعث نہ بنے تو پھر اگلے جھٹکے کیلئے تیار رہو۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔