13 اپریل ، 2020
کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچا دی ہے اور عجب اتفاق ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بہت اموات ہو رہی ہیں۔
آج اس موضوع پر نہیں بلکہ ہمارے مشہور قانون دان و سابق وزیر قانون سینیٹر جناب ایس ایم ظفر کی تازہ کتاب History of Pakistan- Reinterpreteپر کچھ تبصرہ پیش کروں گا۔
ظفر صاحب میرے بہت عزیز دوست ہیں۔ ظفر صاحب کو کون نہیں جانتا تھا بہت اعلیٰ وکیل ہیں اور بہت کم عمر میں ایوب خان کے وزیر بن گئے تھے۔
اعلیٰ سیّد خاندان سے تعلق ہے، رنگون میں ان کے والد نہ صرف مذہبی عالم تھے بلکہ اچھے تاجر بھی تھے۔ 1983میں اسرائیل کے دبائو میں ہالینڈ نے میرے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا کہ میں نے بذریعہ خط اپنے ایک پرانے ساتھی سے کچھ معلومات کی درخواست کی تھی، جس کو ڈچ حکومت نے قانون کے خلاف بتا کر میرے خلاف عدالت میں کیس کر دیا اور اس عدالت نے جس کے 3ججوں میں سے 2یہودی تھے، فوراً مجھے مجرم بنا کر 4سال کی سزا سنا دی۔ میرے لئے یہ نہایت تعجب کی بات تھی۔
ڈچ قوم قانون کی بہت پابند ہے۔ مجھے اس کی اطلاع میرے ڈچ کلاس فیلو انجینئر ہینک سلیبوس نے دی تو میں نے ہالینڈ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر خورشید حیدر سے اپیل داخل کرا دی۔ یہ نہایت نفیس خاتون تھیں، اس سے پیشتر کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف فارن افیئر کی ڈائریکٹر تھیں۔ انہوں نے فوراً دو اچھے وکیلوں کو اس کیس پر لگا دیا۔
میں نے سوچا کہ مجھے ایک وکیل کی خدمات پاکستان سے بھی حاصل کرنا چاہئیں۔ میں ظفر صاحب کی شہرت سے واقف تھا، جب ان سے ملاقات کی تو فوراً فیصلہ کرلیا کہ ان سے درخواست کروں کہ وہ پاکستان کی جانب سے میری پیروی کریں۔
وجہ یہ تھی کہ اوّل تو وہ بہت اعلیٰ وکیل اور مہذب تھے اور دوم یہ کہ وہ سابق وزیر تھے اور میں ہالینڈ کی عدالت کو یہ بھی جتانا چاہتا تھا کہ پاکستان اس معاملے میں بہت سنجیدہ ہے، اس لئے ایک اعلیٰ وکیل لگایا ہے۔ کیس کی تیاری میں مَیں نے بھی بہت مدد کی۔
جس انفارمیشن کو خفیہ کہہ رہے تھے میں نے اس کے خلاف انگلستان کے دو مشہور پروفیسروں، جرمنی کے دو مشہور پروفیسروں اور بلجیم کے دو مشہور پروفیسروں سے سرٹیفکٹ حاصل کر لئے کہ جو معلومات میں نے مانگی تھیں وہ پہلے سے کھلے لٹریچر میں موجود ہیں۔ ہالینڈ کے نہایت مشہور پروفیسر کاسی میر نے بھی یہی سرٹیفکٹ دے دیا۔
جب کورٹ میں ہمارے وکلا نے ججوں کو اپیل کی پٹیشن پیش کی تو ججوں نے ڈچ سرکاری وکیل اور ہمارے وکلا کو چیمبر میں بلایا اور کہا کہ کیا وہ ان دستاویزات اور شواہد کی موجودگی میں کیس لڑنا پسند کریں گے۔
اُنہوں نے انکار کر دیا اور بعد میں ہمارے وکلا کو لکھ کر بھیج دیا کہ پچھلے سرکاری وکیل نے یہ کیس دائر کرکے بڑی غلطی کی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر خان نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہم نے ان پر جاسوسی کا الزام لگایا تھا۔ کیس کی تیاری اور ہالینڈ میں قانونی نکتوں پر بحث کے دوران ظفر صاحب نے بہت اچھا اور کلیدی رول ادا کیا تھا۔
ہمارے ممبر فنانس جناب امتیاز احمد بھٹی مرحوم بھی ہر بار ظفر صاحب کے ساتھ ایمسٹرڈیم جاتے تھے اور مالی ذمہ داریاں سنبھال لیتے تھے۔ ان کے ظفر صاحب سے بہت اچھے تعلقات تھے۔
اس تمام معاملے میں نہایت اہم بات یہ ہوئی کہ جنرل ضیاء نے بلا کر مجھ سے کہا کہ آپ اس کیس کی فکر نہ کریں، آپ ہمارے ہیرو ہیں اور ہیرو رہیں گے۔
میں نے کہا، نہیں میں اپنا نام کلیئر کرانا چاہتا ہوں، ورنہ میں کہیں سفر نہ کر سکوں گا اور یہ کہ میری بیوی اور بچیوں سے لوگ کہیں گے کہ میں جاسوس تھا اور سزا یافتہ ہوں۔ میں نے ظفر صاحب کو راضی کرلیا کہ وہ میری نمائندگی کریں گے۔
کئی افراد نے مجھے ظفر صاحب کی خدمات لینے سے روکا مگر میں نے سختی سے کہ دیا کہ ظفر صاحب ہی میری نمائندگی کریں گے ورنہ استعفیٰ دے کر میں ہالینڈ جاکر خود کو پیش کرکے مقدمہ لڑوں گا، میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور ڈچ قانون کے معاملے میں بےحد غیرجانبدار ہیں۔ اس طرح ظفر صاحب نے ہی میری نمائندگی کی۔
مقدمہ جیتنے کے بعد میں کئی بار ہالینڈ گیا، میرے سُسر بہت بیمار تھے، انہیں کینسر تھا۔ مجھ سے کبھی کسی نے کچھ نہ کہا۔ ایئر پورٹ پر ایک پولیس افسر ملتا تھا، وہ یہ درخواست کرتا تھا کہ پریس سے دور رہیں ورنہ وہ ٹی وی پر اور اخباروں میں آپ کے فوٹو لگا کر پروپیگنڈا کریں گے۔ میں نے اس جائز درخواست پر ہمیشہ عمل کیا اور مجھے کبھی کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جناب ایس ایم ظفر صاحب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ دماغ، عقل و فہم عطا فرمائی ہے۔ ہالینڈ کے کیس کے بعد ہم بہت اچھے دوست بن گئے۔
ماہر قانون، دستور کے علاوہ ظفر صاحب نہایت اعلیٰ مصنف، عاشقِ ادب و غزلیات ہیں۔ میں اپنے گھر کے پاس والے گھر (گیسٹ ہائوس) میں چند قریبی دوستوں کو وقتاً فوقتاً کھانے کی دعوت دیتا رہتا تھا اور اکثر اس وقت ایسا کرتا تھا جب ظفر صاحب کسی کیس کے سلسلہ میں اسلام آباد تشریف لاتے تھے۔ کتاب میں بیان کردہ اہم واقعات کا تذکرہ اور تبصرہ ان شاء اللہ آئندہ کالم میں کروں گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔