Time 01 مئی ، 2020
بلاگ

نالائق بیورو کریٹس کو فارغ کرنے کی تیاری

نالائق بیورو کریٹس کو فارغ کرنے کی تیاری—فوٹو فائل

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے طویل عرصہ سے منتظر اور ضروری سمجھے جانے والے اقدام کے طور پر سویلین بیوروکریسی سے ’’شجر مردہ‘‘ کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے ضابطے کی تمام کارروائی مکمل کر لی ہے۔

قانونی فریم ورک کی موجودگی میں، ایسے افسران جنہوں نے سروس میں 20؍ سال مکمل کرلیے ہیں اور سرکاری ملازمت کیلئے کار آمد نہیں ہیں، انہیں قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے گا اور اس مقصد کیلئے وزارتوں، ڈویژنوں اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کو وزیراعظم آفس کی طرف سے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے وجوہات کا اعلان کر دیا گیا ہے اور ان میں وہ افسران شامل ہیں :

۱) جنہیں کارکردگی جائزہ رپورٹ میں اوسط ریمارکس ملے ہیں (پی ای آر، جنہیں پہلے اے سی آر کہا جاتا تھا)، یا ا ن کی پی ای آر میں تین مختلف افسران کی جانب سے تین یا اس سے زیادہ مرتبہ خراب ریمارکس دیے گئے ہیں۔

۲) جنہیں سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی)، ڈپارٹمنٹ سلیکشن بورڈ (ڈی ایس بی) یا ڈپارٹمنٹ پروموشن بورڈ (ڈی پی بی) کی جانب سے دو مرتبہ ہٹا کر کسی اور کو ان کے عہدے پر رکھنے کی سفارش کی ہو، یا اعلیٰ اختیارات کے حامل سلیکشن بورڈ کی جانب سے دو مرتبہ اس افسر کی ترقی کی سفارش نہ کی ہو اور ان سفارشات کو مجاز اتھارٹی کی جانب سے منظور کیا گیا ہو۔

۳) جنہیں کرپشن کا مرتکب قرار دیا گیا ہو یا اس نے پلی بارگین کیا ہو یا رضاکارانہ طور پر نیب یا کسی تحقیقاتی ایجنسی کو پیسے واپس کیے ہوں۔

۴) جنہیں ایک سے زیادہ مرتبہ سی ایس بی، ڈی ایس بی یا ڈی پی سی کی جانب سے سول سرونٹس پروموشن (بی ایس 18؍ تا 21) رولز 2019ء کے تحت ’’سی‘‘ کیٹگری میں رکھا گیا ہو۔

۵) جس کا رویہ ناشائستہ ہو۔ ریٹائرمنٹ بورڈ اور ریٹائرمنٹ کمیٹی کو پہلے ہی مطلع کر دیا گیا ہے۔ 20؍ اور زیادہ گریڈ کے افسران کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے ایک ریٹائرمنٹ بورڈ تشکیل دیا جائے گا جس میں چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن شامل ہوں گے جو بورڈ کے سربراہ ہوں گے۔

دیگر ارکان میں کابینہ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، وزارت قانون و انصاف ڈویژن اور متعلقہ ڈویژن کا سربراہ یا سیکریٹری شامل ہوں گے۔ گریڈ 19؍ یا اس سے نیچے گریڈز کے افسر کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے حکومت نے ریٹائرمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔

ہر ڈویژن یا ڈپارٹمنٹ میں مختلف ریٹائرمنٹ کمیٹیاں ہوں گی جو مجاز اتھارٹی کو ایسے افسران کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی سفارش کریں گی۔ گریڈ 17؍ تا 19؍ کی ریٹائرمنٹ کمیٹی کا چیئرمین متلعقہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والا ایک ایڈیشنل سیکریٹری یا سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہوگا۔

اس کمیٹی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، لاء ڈویژن اور متعلقہ محکمے یا افسر کا سربراہ شامل ہونگے۔ گریڈ 16؍ اور اس سے نیچے کیلئے تشکیل دی جانے والی ریٹائرمنٹ کمیٹی کا چیئرمین متعلقہ ڈویژن کا جوائنٹ سیکریٹری یا سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہوگا۔

دیگر ارکان میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، لاء ڈویژن اور متعلقہ دفتر یا محکمے کا سربراہ شامل ہوں گے۔ اس نئی اسکیم پر عملدرآمد کیلئے، تمام وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے سرکاری ملازمین کی فہرست تیار کریں جنہوں نے اپنی ملازمت کی طے کردہ معیا مکمل کرلی ہے اور وہ ایسی کیٹگری میں شامل کیے جا سکتے ہیں جنہیں قبل از وقت ریٹائر کیا جا سکتا ہے۔

یہ بورڈز اور کمیٹیاں اپنی سفارشات مجاز اتھارٹی کو بھیجیں گی۔ اگر مجاز اتھارٹی ان سفارشات سے اتفاق کرتی ہے تو مذکورہ سرکاری ملازم کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے گا اور اس میں وہ وجوہات بتائی جائیں گی جن کی بنا پر اسے قبل از وقت ریٹائر کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس افسر کو درخواست کرنے کی صورت میں موقع دیا جائے گا کہ ذاتی حیثیت سے پیش ہو کر سماعت میں حصہ لے۔

اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب ملنے اور ذاتی حیثیت سے سماعت کا موقع ملنے کے بعد اگر مجاز اتھارٹی مطمئن ہو جائے کہ مذکورہ افسر کو ملازمت پر برقرار رکھنا عوامی مفاد میں نہیں تو اس کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے احکامات جاری کیے جائیں گے۔

اس پورے میکنزم کی موجودگی میں، سول بیوروکریسی میں ایسے افراد کی جلد ریٹائرمنٹ کے واقعات سامنے آئیں گے جنہیں شجر مردہ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے چند ماہ قبل مفصل سول سروس ریفارم پیکیج میں ایسے افراد کو ریٹائر کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا جو 20؍ سال کی سروس کے بعد کارکردگی نہیں دکھا رہے اور سرکاری ملازمت کیلئے غیر موثر ہیں۔

اصلاحاتی دستاویز میں لکھا تھا کہ سول سرونٹس ایکٹ کے سیکشن 13؍ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائر ہو جائیں، جیسا کہ مجاز اتھارٹی کی ہدایت ہے اور اگر کوئی ہدایات نہیں دی گئی تو 60؍ سال کی عمر تک پہنچ کر ریٹائر ہو جائیں گے۔

اس سے قبل 20؍ سال کی سروس پر ریٹائرمنٹ کا آپشن کبھی استعمال نہیں کیا گیا، نتیجتا یہ نکلتا ہے کہ سب کو 60؍ سال تک سروس کی یقین دہانی مل جاتی ہے جس سے مسابقت اور فیصلہ لینے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

اب 20؍ سال کی سروس کے بعد بھی باقاعدگی کے ساتھ جائزہ لیا جاتا رہے گا اور حکومت کے پاس طے شدہ طریقہ کار کے مطابق لوگوں کو 20؍ سال کی سروس کے بعد ریٹائر کرنے کا آپشن موجود ہے۔

پالیسی کے نتیجے میں کارکردگی اور مسابقت کی حوصلہ افزائی ہوگی اور نا اہل افسر کو نکال باہر کر دیا جائے گا، یہ سب پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ ماضی میں کچھ حکومتوں نے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ شجر مردہ کو سویلین بیوروکریسی سے اکھاڑ باہر کیا جائے لیکن سول سروسز کے اندر سے ہی اس اقدام کیخلاف سخت مزاحمت سامنے آ رہی تھی۔

آخری مرتبہ 2013ء کے آخری عرصہ میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بیوروکریسی سے کرپٹ، نا اہل اور بے قاعدہ افسران کا صفایا کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا اور وزارتوں اور ڈویژنوں نے اس ہدایت کو نظرانداز کیا۔ کوئی طریقہ کار طے کیا گیا تھا اور نہ ہی حکومت نے اپنے مقصد کے حصول میں دلچسپی کا اظہار کیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔