04 مئی ، 2020
آج بات کرنی 3خبروں کی، 3کہانیوں کی، 3دکھوں کی، لیکن اس سے پہلے ’مذاقیہ‘ نما چند منظر ملاحظہ کریں، ایک طرف نواز، مریم، زرداری من مرضی کورنٹینوں میں مزے لٹ رہے تو دوسری طرف شہباز شریف فخریہ بتاتے پھر رہے کہ الیکشن سے ایک مہینے پہلے تک وزیراعظم میں تھا۔
مقتدر حلقوں سے مل کر میں نے تو اپنی کابینہ کے نام بھی فائنل کر لیے تھے، دو نامور صحافی مجھے وزیراعظم بنانے کا پیغام بھی پہنچا چکے تھے، ایک طرف بلاول بیک وقت شعلوں بھرے جذباتی بیان داغنے اور بیک ڈور رابطوں میں تو دوسری طرف، پی پی، مسلم لیگ دونوں جماعتیں، نواز، مریم سزائیں ختم کرانے، زرداری اینڈ کمپنی کو ریلیف پہنچانے کیلئے نیب قوانین میں تبدیلی کے بدلے اٹھارہویں ترمیم میں ترمیموں کیلئے بیٹھی ہوئیں۔
ایک لاہوری نیب زدہ سرمایہ کار کے ڈرائنگ روم میں شاہد خاقان عباسی، فاروق ایچ نائیک سمیت کئی ’بھلے مانس‘ بیٹھکیں سجا چکے، کیوں کیسا؟
کیسی لگی یہ منافقت، باہر کچھ اور، اندر کچھ اور، یہ ہے ان جموروں کی جمہوریت، یہ ہے سویلین بالادستی، انقلاب، مزاحمت، یہ ہے انکی حیثیت، انکی اوقات، قدم قدم پر جھوٹ، قدم قدم پر مکاری، قدم قدم پر مک مکا مگر بات وہی، جیسی قوم، ویسے حکمراں، یہ جو بھی کر جائیں، بھٹو زندہ رہے گا، قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں پر بھنگڑے ڈالے جاتے رہیں گے۔
اب پہلی خبر، یہ خبر جنگ کے رپورٹر بلال عباسی کی، جس کے مطابق، جعلی اکاؤنٹس کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے والے اومنی گروپ کے ڈائریکٹر حسین فیصل بتارہے کہ بےنظیر بھٹو کا پلاٹ بھی دھوکے سے زرداری کی فرنٹ کمپنی کو منتقل کیا گیا۔
کلفٹن کراچی کا یہ پلاٹ بے نظیر بھٹو نے اپنی کزنوں شبنم بھٹو، رخسانہ بھٹو سے خریدا، بی بی نے 1998ءمیں پلاٹ اپنے نام کروانے کیلئے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو خط بھی لکھا،پھر اس پلاٹ کے کاغذات بدلے گئے۔
کاغذوں میں ظاہر کیا گیا کہ یہ پلاٹ بےنظیر بھٹو نے نہیں بلکہ اومنی گروپ کے ڈائریکٹر حسین فیصل نے شبنم بھٹو، رخسانہ بھٹو سے خریدا (حالانکہ حسین فیصل کہے میں تو زندگی میں کبھی شبنم بھٹو ،رخسانہ بھٹو سے ملا تک نہیں) کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جب بی بی کا خط دکھا کر اعتراض اٹھایا، تب اومنی گروپ کے کرتا دھرتا انور مجید آگے آئے اور پھر سب معاملات طے ہو گئے۔
یہ پلاٹ زرداری کمپنی کو منتقل ہوا، اس پلاٹ کو رہائشی سے کمرشل کرایا گیا، اس پر بخت ٹاور بنا، اس ٹاور میں بینک کی جگہ لینے کا بتاکر حسین لوائی نے زرداری صاحب کی بے نامی کمپنی کو 930ملین منتقل کئے، یہی 930ملین عرب تاجر ناصر لوتھا کے نام سے حسین لوائی کے بینک میں ہی سرمایہ کاری کا کہہ کر رکھوائے گئے، اب حسین فیصل وعدہ معاف گواہ بن کر یہ کہانی سنا چکا، جبکہ ناصر لوتھا بھی وعدہ معاف گواہ بن کر بتا چکا کہ میرے نام پر جو کچھ ہوتا رہا، سب منی لانڈرنگ، سب کالا دھن سفید کرنے کا چکر، مجھے کچھ علم نہیں۔
اب آپ ہی بتائیں جن شیر جوانوں نے بےنظیر بھٹو کو نہیں بخشا، ان کو ملک وقوم کو کیا بخشنا تھا، پی پی کا نعرہ ہے، بی بی کا مشن اپنانا ہے، پاکستان بچانا ہے، پاکستان اور مشن چھوڑیں، ان سے تو خود بی بی بھی نہ بچ پائیں۔
دوسری خبر، پنجاب کی رانی کی، یہ 13سال کی تھی، اسے شوہر قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا گیا، یہ گرفتار ہوئی اور ابھی چند ہفتے پہلے 19سالہ قید کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے معذرت کرتے ہوئے اسے بےگناہ قرار دیا۔
جی ہاں، 19سالہ جیل کے بعد، آگے سنیئے، بری ہونے کے بعدجب اس سے پوچھا گیا کہ کچھ چاہئے تو جو چیزیں اس نے مانگیں اور بعد میں بیت المال نے دیں، وہ یہ ہیں، واشنگ مشین ،گیس چولہا بمعہ سلنڈر، 2چارپائیاں، 3زنانہ، 2مردانہ سوٹ، 2بسترے بمعہ تکیے، بیڈ شیٹ، کمبل، 2ماہ کا راشن اور 60ہزار کا چیک، یہ ہے پاکستان کی رانی، رانی کا نصیب، یہاں عذاب نہیں آئینگے تو کیا رحمتیں برسیں گی، مجھے یاد ایک بار پیشی پر ایک پولیس کانسٹیبل غلطی سے فریال تالپور کے آگے آگیا تو زرداری صاحب نے بڑی سختی سے اپنی چھڑی سے اسے ایک طرف کردیا، مجھے یاد ایک مرتبہ بلاول بھٹو نے انتہائی غصے سے کہا تھا۔
اس ظالم حکومت نے تو ہماری گھر کی خواتین پر بھی پرچے کروا دیے، بلکہ مریم نواز کی گرفتاری پر تو شہنشاہِ جذبات بنے بلاول نے قومی اسمبلی فلور پر یہ تک کہہ دیا ’’خاتون کو گرفتار کرنے والو، تم بےغیرت ہو‘‘ مجھے یہ بھی یاد ایک مرتبہ پیشی پر نواز شریف نے بھی غمزدہ لہجے میں کہا تھا ’’دکھ یہ کہ میری بیٹی پر بھی مقدمے بنا دیے گئے ہیں‘‘ اب چونکہ رانی زرداری صاحب کی بہن، نہ بلاول کی پھوپھو اور نہ نواز شریف کی بیٹی، یہ غریب، لاوارث، باقی چھوڑیں، اس کیلئے تو میڈیا بولا نہ قوم، اس نے 19سالہ قید کاٹی، چند چیزیں اور 60ہزار کا چیک لیا، گھر چلی گئی۔
تیسری خبر، رحیم یار خان سے، غربت، بےروزگاری، بیوی کا لڑ کر سسرال چلے جانا، باپ نے روٹی روٹی کرتے اپنے دو سالہ بچے کے گلے میں پھندا ڈالا اور اسے پھانسی دے کر مار ڈالا، یہ خبر سوشل میڈیا پر بھی آئی، یہ خبر ایک دو ٹی وی چینلوں پر بھی چلی، ایک آدھ اخبار میں بھی چھپی مگر اس خبر کو اتنی اہمیت بھی نہ ملی۔
جتنی اہمیت نواز شریف، زرداری صاحب کی ایک عدالتی پیشی کو ملتی ہے، مگر اہمیت ملتی بھی کیسے، غریب کا بچہ تھا، پیدا ہوا تو کیا ہوا، مر گیا تو کیا ہوا، یہ پاکستان، یہ یورپ تھوڑی، جو ایک شامی بچے کی سمندر کنارے پڑی لاش دیکھ کر اپنی امیگریشن پالیسی بدل دے، یہ پاکستان، یہ امریکہ، برطانیہ تھوڑی، جہاں بچہ مرنے پر ملکی قوانین بدل جائیں۔
یہ مسلمانوں، مومنوں کا ملک، یہ اسلام کا قلعہ، یہاں یہی ہونا تھا، یہ منظر مسلسل میری آنکھوں میں، گھر کی دیوار، دیوار میں گڑا لکڑی کا ڈنڈا، ڈنڈے سے بندھی رسی، رسی دوسالہ بچے کے گلے میں اور بچے کی لٹکتی لاش، سوچوں، اگر ہم سے قیامت والے دن اس بچے کا سوال ہو گیا تو ہم میں سے کون ہے جو جواب دے پائے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔