Time 11 مئی ، 2020
بلاگ

’ن‘ کے بغیر نیکی!

فوٹو: فائل

جہاں کورونا نے یہ بات ثابت کر دی کہ 90فیصد سرکاری ملازمین دفتر نہ جائیں تو بھی کام چل جاتا ہے، وہاں کورونا کی بدولت گھروں میں بند یار لوگ بور تو ایسے ہو رہے کہ جیسے کورونا سے پہلے یہ سب ناسا کے سائنسدان تھے اور کورونا نہ ہوتا تو اس وقت مریخ پر سبزیاں اُگا رہے ہوتے۔

جہاں یہ سچ لگے کہ چین نے حسبِ معمول ون نمبر مال مطلب ون نمبر کورونا امریکا، برطانیہ، یورپ بھیجا اور دو نمبر کورونا پاکستان بھجوا دیا، وہاں یہ بھی سچ کہ یہ کورونا کی اپنی مہربانی یا نااہلی کہ ہمارے ہاں اتنا ہلاکت خیز نہیں ہوا۔

ورنہ ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی، میرے دوست (ن) کی تحقیق بتائے کہ ابھی تک پاکستان میں کورونا نے جس پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ افطار پارٹی، اسی دوست کا کہنا کہ ہمارے ہاں تو لاک ڈاؤن ایسا بےمثال بندہ دکانوں پر آن لائن خریداری کیلئے باہر لکھے گئے نمبر پر کال کرے تو آگے سے جواب ملتا ہے ’’شٹر چُک کے اندر آجا‘‘۔

ابھی پرسوں منہ پر ماسک، ہاتھوں میں گلوز پہنے، سہما سہما میرا دوست (ن) محلے کی مارکیٹ میں کچے چوروں کی طرح ایک طرف کھڑا ملا، بڑی مشکل سے پہچان کر رسمی علیک سلیک کے بعد پوچھا، کیسی گزر رہی، بولا، کورونا ختم ہو لینے دو، ایک مہینہ گھر نہیں جاؤں گا۔

کہا، میں سمجھا نہیں، بولا، بیوی نے مت مار رکھی، حالات یہ، اب تو بیوی گھورے تو کورونا کی تین علامات، سانس لینے میں دشواری، سردرد اور گلا خشک ہونا ظاہر ہونے لگتی ہیں، اوپر سے آتے جاتے، پاس سے گزرتے جب بیگم یہ کہتی ہے کہ ’’پتا نہیں یہ بیماری کب ٹلے گی‘‘۔

تو یہ پتا نہ چلے مجھے کہہ رہی یا کورونا کو، پھر پرانے گانے سنو تو بیگم بولے ’’کس کلموہی کی یاد آرہی ہے‘‘، نئے گانے سنو تو کہے، جوانی لڑی ہوئی ہے یا کوئی نیا عشق مٹکا چل رہا، اب تم ہی بتاؤ، باہر کورونا، گھر میں بیگم، یہ حالات، بندہ کیا کرے، میں نے کہا، میر ے دوست دو باتیں سوچ کر خوش ہو جا۔

ایک تو یہ گھر گھر کی کہانی، سب خاوند یہی بھگت رہے، دوسری بات، مجھ سے تو تم اب بھی بہتر، میری سنو، گھر بیٹھے بیٹھے بیگم سے اتنی دوستی ہوئی کہ ایک دن باتوں باتوں میں اسے اپنی گرل فرینڈ کا بتا بیٹھا، اب سوچو، میرا جیون کیسا گزر رہا ہوگا۔

دوست یاد رکھو بیوی کاغذ پر رکھے پیپر ویٹ کی طرح، خاوند کو پھڑپھڑانے سے تو نہیں روکتی مگر اُڑنے نہیں دیتی، اگر تم نے اُڑنا بھی، اسے یہ محسوس نہیں ہونے دینا۔

دکھی دوست کو دلاسا دے کر ابھی مارکیٹ سے نکلا ہی تھا کہ فون بجا، دوسری طرف شیخو، خلافِ معمول چہکتا شیخو، خلافِ توقع خوشگوار موڈ میں شیخو، سلام دعا کے تکلف میں پڑے بنا بولا، یہ سنو، ایک شخص کا پانچواں نکاح تھا، مولوی نے پوچھا، قبول ہے۔

وہ شخص بولا، مولوی جی تہانوں پہلاں کدی ناں کیتی اے جے اج کراں گا (مولانا صاحب آپکو پہلے کبھی انکار کیا جو آج کروں گا) یہ سن کر میں نے کہا، قبلہ آج بڑے چہک رہے، کورونا ٹیسٹ نیگیٹو آگیا یا اپنی دائمی بواسیر کا علاج مل گیا، بولا، منحوس، واقعی تم منحوس ہو، تمہاری باتیں سن کر اکثر وہ شخص یاد آئے جس نے رمضان میں عطاء اللہ شاہ بخاری سے مذاق کرتے ہوئے پوچھا، حضرت سنا آپ تعبیر و تاویل میں بڑے ماہر، کوئی ایسا نسخہ بتائیں کہ انسان کھاتا پیتا رہے اور روزہ بھی نہ ٹوٹے۔

حضرت بخاری بولے، یہ تو بہت آسان، ایک شخص کو مقرر کردو، جو تمہیں سحری سے افطاری تک جوتے مارتا رہے، تم جوتے کھاتے اور غصہ پیتے رہو، اس طرح کھاتے، پیتے رہو گے، روزہ بھی نہیں ٹوٹے گا۔یہ سن کر میں نے کہا، قبلہ اب میری بھی سن لیں، آپکو موقع بےموقع کچر کچر کرتے، بال کی کھال ادھیڑتے دیکھ کر وہ ملزم یاد آجائے۔

جس سے جج نے پوچھا، قتل تم نے کیا، ملزم، جی کیا، جج، لاش کہاں ہے، ملزم، لاش جلا دی، جج، وہ جگہ دکھائو جہاں لاش جلائی، ملزم، وہ جگہ میں نے کھود دی، جج، وہ کھودی ہوئی مٹی کہاں ہے، ملزم، اس کی میں نے اینٹیں بنادیں، جج، وہ اینٹیں کہاں ہیں، ملزم، اِن اینٹوں سے میں نے مکان بنا لیا، جج، وہ مکان دکھا دو، ملزم، وہ مکان زلزلے میں گر گیا۔

جج، مکان کا ملبہ کدھر ہے، ملزم، وہ میں نے بیچ دیا، جج، کسے بیچا، ملزم، پڑوسی کو، جج، پڑوسی کو بلوا لو، ملزم، وہ مارا گیا، جج، کس نے مارا، ملزم، میں نے مارا، جج، لاش کدھر ہے، ملزم، لاش میں نے جلا دی، جج، شٹ اپ، شٹ اپ، تمہاری قتل کہانی نہ ہوئی عمران خان کی لاک ڈاؤن کہانی ہو گئی، بکواس بند۔

شیخو بولا، ایک منٹ میں آگئے نابغضِ عمران پر، تم جل ککڑوں کی حالت تو یہ ہو چکی، کہتے پھر رہے چونکہ اس رمضان میں افطار کی ایک دعوت بھی نہیں ملی، لہٰذا حکومت ناکام ہو چکی، عمران خان استعفیٰ دیدیں، میں نے کہا، قبلہ آپ کو غلط فہمی ہو گئی۔

ہم تو کپتان کے کھرے، سچے پرستار، ہمارا تو یہ ماننا قائداعظم تھے بانیٔ پاکستان اور ان کا وژن تھا کام، کام اور کام، عمران خان ہیں بانیٔ نیا پاکستان اور ان کا وژن ہے، مانگ، مانگ اور مانگ، شیخو میری بات کاٹ کر بولا، پھر وہی فیصل آبادی جگت، وہ بھی ٹھنڈی ٹھار، تم جیسا شخص کفن بیچ رہا تھا، ایک خریدار آیا تو تم جیسے کفن فروش نے اسے دوکفن دکھا کر کہا۔

یہ پہلے والا ایک ہزار کا جبکہ دوسرے والا پانچ ہزار کا، خریدار نے حیرت سے پوچھا، دوسرے والا کفن اتنا مہنگا کیوں، کفن فروش کا جواب تھا، ایدے تے کدی ’بُر‘ نہیں آئے گی، میں نے کہا، قبلہ کل آپکی ایک تصویر اخبار میں دیکھی، آپ مستحقین میں راشن تقسیم کررہے تھے۔

شیخو میری بات کاٹ کر بولا، عمر کے جس حصے میں آپ ہیں، اس عمر میں تو بندے کو اپنا منہ دھندلا دھندلا نظر آتا ہے، آپ نے میری تصویر دیکھ لی، بڑی ہمت ہے، اچھا آگے بولیں۔

میں نے کہا، بس آپ کو بتانا یہ تھا کہ بابا سیانا کہتا ہے کہ ’’پتر نیکی کرتے ہوئے سیلفی، تصویر لینے سے لفظ نیکی کا ’ن‘ ضائع ہو جاتا ہے‘‘، ابھی یہی کہا تھا کہ شیخو نے خدا حافظ کیے بنا فون کاٹ دیا، مجھے پتا تھا، یہ ہوگا کیونکہ یہ کئی بار ہو چکا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔