پاکستان
31 اگست ، 2012

ارسلان کیس:نیب سے تحقیقات شعیب سڈل کو منتقل،اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری

ارسلان کیس:نیب سے تحقیقات شعیب سڈل کو منتقل،اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری

اسلام آباد… سپریم کورٹ نے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے خلاف قومی احتساب بیورو میں جاری تحقیقات واپس لیکر سابق پولیس آفیسر ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کو تحقیقات کی ذمہ داری دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ جمعرات کو جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل دو رکنی بنچ نے قومی احتساب بیورو کے ذریعے کیس کی تحقیقات پر نظرثانی کی اپیل پر اپنا فیصلہ سنایا۔ اس موقع پر ارسلان افتخار موجود تھے مگر ملک ریاض یا ان کے وکیل اور اٹارنی جنرل نہیں تھے سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالتی حکم سناتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل عرفان قادر کے ملک ریاض کا وکیل رہنے کی بات چھپائی گئی، پیشہ ورانہ طور پر کسی کا وکیل رہنا الزام نہیں، لیکن الزام یہ تھا کہ اٹارنی جنرل نے کیس کی سماعت میں اس تعلق کا اظہار نہ کیا، اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ نیب یا پولیس کو ایف آئی اے کی خدمات لینے کا کہتے، نیب کی غیرجانبداری، اٹارنی جنرل سے براہ راست احکامات لینے سے متاثر ہوئی۔ آرڈر کے مطابق اٹارنی جنرل کا ماضی میں کردار بھی ہدف تنقید رہا ہے، کیس میں عدالتی دلچسپی سے متعلق اٹارنی جنرل کے ریمارکس بہت حساس معاملہ ہے عدالتی حکم پر اثرانداز ہونے سے متعلق اٹارنی جنرل کے طرز عمل پر ان کو نوٹس بھی جاری کیا جارہا ہے، عدالت نے لکھا کہ نیب کے رجسٹرار، سپریم کورٹ کو طلبی کے خطوط، طے شدہ عدالتی فیصلے کے خلاف تھے آرڈر میں وفاقی پولیس کے آفیسرز فیصل میمن اور طاہر بشیر کے ملک ریاض سے تعلق کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن کو کارروائی کا حکم دیا۔ شعیب سڈل کمیشن کو جوڈیشل اختیارات دیتے ہوئے ان سے 30 دن میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ سابق وزیر اعظم گیلانی کے فیصلے میں لکھ دیا تھا کہ چھوٹے اور بڑے کا لحاظ نہیں کیا جائیگا۔ نیب کی انکوائری شفاف نہیں ہو سکتی۔ واضح رہے کہ قبل ازیں ملک ریاض کی طرف سے ارسلان افتخار کو رقوم دینے اور بیرون ملک دورے کرانے کے الزامات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تھی۔ عدالت نے اس معاملے کو مناسب تحقیقات کیلئے حکومت کے پاس بھجوا دیا تھا پھر اٹارنی جنرل کے خط پر نیب نے وفاقی پولیس، ایف آئی اے اور نیب حکام پر مشتمل مشترکہ ٹیم تشکیل دی۔ اس پر ارسلان افتخار نے اعتراضات اٹھائے اور سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی اس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ مشترکہ ٹیم میں شامل عہدیدار ملک ریاض کے ساتھی ہیں۔ عدالت نے تحقیقاتی عمل پر حکم امتناع جاری کیا تھا عدالت نے 2 روز قبل اس کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ارسلان افتخار نے کہا کہ انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہے۔ میں صرف چیف جسٹس کا بیٹا نہیں بلکہ پاکستان کا شہری بھی ہوں اور اس حیثیت سے میرے کچھ حقوق بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے دن سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مزید خبریں :