نیا قومی مالیاتی کمیشن۔ انجام کا آغاز؟

آئین کے تقاضے تاخیر سے پورے کرتے ہوئے دسواں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) تشکیل دے دیا گیا ہے جو وفاق اور صوبوں کے مابین مالیاتی وسائل کی تقسیم کے موجودہ فارمولے پر غور کرکے اپنی نئی سفارشات پیش کرے گا۔ کیا یہ کمیشن اتفاق رائے سے کوئی نیا فارمولہ طے کر سکے گا؟

اور اگر نہیں کر سکا تو پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت پر اس کے کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ نئے کمیشن کے حوالے سے آج کے بہت اہم سوالات ہیں کیونکہ کمیشن کی تشکیل سے قبل ہی یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت مالیاتی وسائل کی تقسیم کے موجودہ فارمولے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی تشکیل کے فوراً بعد ہی دسواں قومی مالیاتی کمیشن متنازع ہو گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر کمیشن کی تشکیل کو آئین کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مشیرِ خزانہ کو کمیشن کا رکن بنانے اور ان کی صدارت میں کمیشن کا اجلاس ہونے پر اعتراض کیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی سیکرٹری خزانہ کو ماہرِ معیشت کی حیثیت سے کمیشن کا رکن بنانے پر بھی اعتراض کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ اپنے خط میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے اخراجات وفاقی حکومت اپنے حصے سے ادا کرتی ہے۔ اگر اب حکومتوں کو زیادہ وسائل فراہم کرنا ہیں تو وفاقی حکومت اپنے حصے سے فراہم کرے، یعنی صوبے اپنے حصے کی رقم دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اس طرح بین السطور وزیراعلیٰ سندھ نے یہ بھی باور کرا دیا کہ کسی اور مدد کے لیے صوبوں کے حصے سے کٹوتی پر سندھ کبھی بھی تیار نہیں ہوگا۔ دوسری طرف کمیشن کی تشکیل کو بلوچستان ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے کمیشن میں بلوچستان کے نمائندے کے طور پر جاوید جبار کی تقرری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ جاوید جبار ادیب اور لکھاری ہیں، ان کا معیشت سے کیا تعلق؟ ابھی سے نظر آ رہا ہے کہ کمیشن اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پائے گا۔

البتہ کثرتِ رائے سے فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن تحریک انصاف حکومت کمیشن سے جو کام لینا چاہے گی، جو کام لینے کے لیے بعض حلقوں کے مطابق اس پر دباؤ ہوگا، وہ کام ہو سکے گا یا نہیں۔ کمیشن بننے سے بہت پہلے منصوبہ بندی کے تحت اس بحث کا آغاز ہو چکا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے موجودہ فارمولے میں تبدیلی ہونی چاہئے یا نہیں۔

پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ایک مخصوص حلقہ مسلسل یہ دلائل دے رہا ہے کہ صوبوں کو زیادہ مالیاتی وسائل دے دیے گئے ہیں اور صوبے ان وسائل کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ وفاق کے پاس بہت کم وسائل ہیں، جس کی وجہ سے ملک بہت سے مسائل کا شکار ہو گیا ہے۔ نہ صرف بڑے قومی ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالیاتی گنجائش نہیں ہے بلکہ سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات سے نمٹنے کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں۔

مارکیٹ میں یہ تجویز بھی گردش کر رہی ہے کہ قابل تقسیم پول (Divisible Pool) میں دفاعی اخراجات کو الگ کر دیا جائے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو چاروں صوبوں کی طرح الگ الگ حصہ دیا جائے۔ اس طرح قابل تقسیم پول میں سے دفاعی اخراجات الگ کرنے سے باقی جو رقم بچے، وہ وفاقی اور صوبوں میں تقسیم کے لیے نیا فارمولا بنایا جائے۔ صوبوں کے حصے میں سے پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو نئے فارمولے کے تحت رقوم تقسیم کی جائیں۔

اگر تحریک انصاف ان تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے بہت زیادہ سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے موجودہ فارمولے میں ان تجاویز کے مطابق تبدیلی اور اس تبدیلی کو آئینی تحفظ دینے کے لیے 18ویں آئینی ترمیم میں ترمیم کرنا پڑے گی۔

ہو سکتا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن میں اکثریتی فیصلے لے لیے جائیں کیونکہ وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں لیکن آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت میں سیاسی قوتیں کمزور ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سیاسی قوتوں پر احتساب کی تلوار بھی لٹک رہی ہے لیکن 18ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی وسائل کی تقسیم کا موجودہ فارمولہ پاکستان کی تاریخ میں 1973ء کے دستور کے بعد سیاسی قوتوں کی سب سے بڑی فتوحات ہیں۔ سیاسی قوتوں کی کمزوری اور ’’کمزوریوں‘‘ کے باوجود ان کی فتوحات کو ان کی شکست میں تبدیل کرنا اس قدر آسان نہیں ہوگا۔

تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے ہی پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف اگر این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے میں بڑی تبدیلی اور 18ویں ترمیم میں ترمیم کے ایجنڈے کی طرف جاتی ہے تو پولرائزیشن میں شدت آئے گی، جس کے نتائج جلد یا بدیر ملک کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔

اس کے برعکس اگر یہ فرض کریں کہ تحریک انصاف مذکورہ بالا ایجنڈے کی طرف نہیں جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کی بڑی اور بنیادی دھارے کی سیاسی قوتوں کے ساتھ محاذ آرائی کی انتہا پر جاکر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔

کیا وہ سیاسی طور پر اس کی متحمل ہو سکتی ہے؟ دسواں قومی مالیاتی کمیشن اس محاذ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا آغاز ہے۔ کمیشن کے پہلے اجلاس میں بہت سی باتیں واضح ہو جائیں گی کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔