Time 18 مئی ، 2020
بلاگ

نسیم حجازی سے معذرت

نسیم حجازی سے معذرت—فوٹو فائل

’’کیا آپ نے نسیم حجازی کا ناول محمد بن قاسم نہیں پڑھا؟‘‘’’جی پڑھا ہے‘‘

’اگر پڑھا ہے تو پھر آپ نے یہ کیسے لکھ دیا کہ محمد بن قاسم کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال نہیں بلکہ اٹھائیس سال تھی اور آپ نے یہ بھی لکھ دیا کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام محمد بن قاسم نہیں لایا بلکہ اُس سے پہلے صحابہ کرامؓ کے دور میں آ چکا تھا۔ ہم بچپن سے اسکولوں کالجوں میں جو پڑھتے اور پڑھاتے آ رہے ہیں آپ اُس کی نفی کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

’’محترم ذرا رکیے! آپ تو غصے میں آ گئے۔ نسیم حجازی نے اپنے ناول میں جو کچھ لکھا ہے اُس کا کوئی مستند تاریخی حوالہ نہیں دیا لیکن میں نے محمد بن قاسم کے متعلق اپنے کالم میں جو بھی لکھا اُس کا حوالہ پیش کر سکتا ہوں۔‘‘

میری گزارش سُن کر اسلام آباد کے ایک معروف کالج کے پرنسپل کچھ دھیمے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے مستند حوالہ جات اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے پرنسپل صاحب کو اگلے دن بلا لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں کل تو اتوار ہے۔ آج کل ہمارے طلبہ آن لائن کلاسیں لے رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن آپ کے کالم کے بعد کئی طلبہ نے ہمیں کہا ہے کہ محمد بن قاسم کے بارے میں اُنہیں جو کچھ پڑھایا گیا آپ نے اُس کی نفی کر دی اسلئے مجھے آج ہی کوئی مستند حوالہ چاہئے۔ میں اپنے طلبہ کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں۔

میں نے فوری طور پر مولانا محمد اسحاق بھٹی کی کتاب ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘ کے کچھ اہم صفحات کے سکرین شاٹس بنائے اور وٹس ایپ کے ذریعہ پرنسپل صاحب کو بھجوا دیے۔ اُنہیں یہ بھی بتا دیا کہ اس کتاب کو ادارۂ ثقافت اسلامیہ (2کلب روڈ لاہور) نے 1990ء میں شائع کیا تھا لہٰذا یہ کتاب ایک حکومتی ادارے کی شائع کردہ ہے اور ایک سرکاری کالج میں آپ اسکا حوالہ بلا خوف دے سکتے ہیں۔

مولانا محمد اسحاق بھٹی نے یہ کتاب تاریخ ابن خلدون، ابو ریحان البیرونی کی کتاب الہند، چچ نامہ، سنن ابی دائود، سنن نسائی اور ابو الحسن احمد بن یحییٰ بلا ذری کی فتوح البلدان سمیت 63 اہم تاریخی کتب کے حوالے دیکر لکھی۔ اس کتاب کے مطابق برصغیر میں محمد بن قاسم سے قبل پچیس صحابہ کرامؓ تشریف لائے۔

بارہ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں، پانچ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں، تین حضرت علیؓ کے دور میں، چار حضرت معاویہؓ کے دور میں اوریزید بن معاویہ کے دور میں ایک صحابیؓ آئے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی نے تمام صحابہ کرامؓ کے نام لکھے ہیں اور بتایا کہ اُنہوں نے ہندوستان کے علاقے گجرات، مکران اور سندھ میں کہاں کہاں جنگیں لڑیں اور کون کون سے علاقے فتح کئے۔

ہندوستان پر پہلا حملہ حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفیؓ کی قیادت میں ہوا جو عمان اور بحرین کے حاکم تھے۔ یہ اولین عرب لشکر تھا جو ایک بحری بیڑے میں ممبئی کے قریب تھانہ اور بھڑوچ کی بندرگاہوں کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا لیکن اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھا اور واپس چلے گئے بعد ازاں حکم بن ابو العاص ثقفیؓ نے دوبارہ تھانہ، دیبل اور مکران پر لشکر کشی کی۔

مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب میں محمد بن قاسم کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب اُنہوں نے حجاج بن یوسف کے حکم پر سندھ کا رُخ کیا تو اُن کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ گزشتہ کالم میں محمد بن قاسم کا ذکر مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایک اُستاد کی زبانی آیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کے اُستاد کو محمد بن قاسم کے متعلق زیادہ دُرست معلومات حاصل تھیں لیکن ہمارے اپنے پاکستان میں کہیں غلط کہیں نا مکمل تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ میں نے اپنے کالم میں کہیں بھی محمد بن قاسم کے تاریخی کردار سے انکار نہیں کیا صرف کچھ واقعات کو درست کیا لیکن افسوس کہ جہاں بچوں کو تاریخ کے نام پر جھوٹ پڑھایا جائے وہاں سچ بولنے اور لکھنے والوں سے نفرت کی جاتی ہے۔

گزشتہ کالم پر کچھ لوگوں کو یہ اعتراض تھا کہ اگر نسیم حجازی نے محمد بن قاسم کو کم سن سالار لکھا تو آپ نے اُسے اٹھائیس سال کا کیوں قرار دیدیا؟ کچھ دوستوں نے یہ شکایت کی کہ آپ نے محمد بن قاسم کو ہیرو کیوں بنایا کیونکہ سندھ کا اصل ہیرو تو راجہ داہر ہے؟

سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر پنجاب کا ہیرو رنجیت سنگھ ہو سکتا ہے تو سندھ کا ہیرو راجہ داہر کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر کوئی راجہ داہر کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے تو ضرور سمجھے لیکن ہیرو صرف اپنی زبان، رنگ، نسل اور مذہب کی وجہ سے ہیرو نہیں ہوتا وہ اپنے کردار کی وجہ سے ہیرو بنتا ہے۔ سندھ میں پورٹ قاسم سے لیکر پی این ایس قاسم اور بن قاسم ٹائون سے باغ ابن قاسم سمیت کئی مقامات محمد بن قاسم کے نام سے وابستہ ہیں۔

اگر کسی کو محمد بن قاسم اچھے نہیں لگتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سب کو بُرے لگیں اور یہ بھی اچھا نہیں کہ کوئی راجہ داہر کو اپنا ہیرو بنانے کیلئے رنجیت سنگھ کو تمام اہل پنجاب کا ہیرو بنا دے۔ ہو سکتا ہے رنجیت سنگھ بھی کچھ لوگوں کو بہت اچھا لگتا ہو لیکن بہت سے پنجابیوں کا ہیرو دلا بھٹی ہے جسے شہنشاہ اکبر نے لاہور میں پھانسی دی کیونکہ وہ اکبر کے دین کو نہیں مانتا تھا۔

کئی پنجابی رائے احمد خان کھرل کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں جو 1857ء میں انگریزوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور کئی پنجابیوں کا ہیرو بھگت سنگھ ہے جسے انگریزوں نے لاہور میں پھانسی دی۔ رنجیت سنگھ نے کئی اچھے کام کیے ہوں گے لیکن اُس نے بادشاہی مسجد لاہور میں گھوڑوں کا اصطبل بنا کر اور موتی مسجد کو موتی مندر بنا کر اپنے آپ کو متنازع بنایا۔ اُس کے دور میں جموں و کشمیر میں جو ظلم ہوا اُس کی مثال نہیں ملتی اسی لئے کشمیریوں کا ہیرو مظفر آباد کا حاکم راجہ زبردست خان ہے جس نے سید احمد شہید کے ساتھ مل کر سکھوں کیخلاف مزاحمت کی۔

کچھ حضرات نے میر جعفر کے خاندان سے متعلق کسی مستند کتاب کا پوچھا ہے۔ سب سے مستند کتاب ہمایوں مرزا کی From Plassey to Pakistan ہے۔ ہمایوں مرزا پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے بیٹے اور سید جعفر علی خان نجفی کے پڑپوتے ہیں۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ سید جعفر علی خان نجفی دراصل نجف کے گورنر سید حسین نجفی کے پوتے تھے اور سراج الدولہ کی فوج کے سربراہ بنے۔ اسی میر جعفر کی اولاد میں سے اسکندرمرزا پاکستان کے صدر بن گئے۔

نسیم حجازی کے ناولوں میں میر جعفر کا ذکر تو ملتا ہے میجر جنرل اسکندر مرزا کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ ہم اپنی پسند کی تاریخ پڑھنا چاہتے ہیں جس میں ہیرو بھی ہماری پسند کا اور ولن بھی ہماری پسند کا ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔