01 جون ، 2020
نواز شریف لندن میں خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن انکے سیاسی مخالفین اس خاموشی سے بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ انہیں نواز شریف کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے لہٰذا وہ خاموش نواز شریف کیخلاف طوفانی بیان بازی کے ذریعہ آنیوالے نامعلوم طوفانوں کا راستہ روکنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔
ایسی ہی ایک تازہ کوشش وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ انہیں کسی نے نواز شریف کی ایک تصویر دکھا دی جس میں نواز شریف لندن کے کسی ریستوران میں اہلخانہ کے ہمراہ چائے پی رہے ہیں۔
یہ چائے نجانے کس کس کے دل و دماغ پر بجلی بن کر گری اور شیخ صاحب نے یہ بیان داغ دیا کہ نواز شریف 1998ءکے ایٹمی دھماکوں کے حامی نہیں تھے، ان دھماکوں کی حمایت اس وقت کی کابینہ میں سے راجہ ظفر الحق اور گوہر ایوب خان کر رہے تھے یا میں کر رہا تھا۔
راجہ ظفر الحق نے شیخ رشید احمد کے اس دعوے کی فوری تردید کر دی ہے اور کہا ہے کہ 1998ءمیں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے اور دھماکوں کا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعظم کے سوا کسی اور کو نہیں مل سکتا۔ شیخ رشید احمد کے اس بیان کے بعد کئی لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھ چکے ہیں کہ نواز شریف 1998میں ایٹمی دھماکوں کے حامی تھے یا نہیں؟
یہ سوال مجھے غیرضروری سا لگتا ہے کیونکہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تو وزیراعظم نواز شریف تھے اور تاریخ میں یہی لکھا جائیگا کہ پاکستان نواز شریف کے دور میں ایٹمی قوت بنا۔ کل مجھے پشاور سے ایک بزرگ اخبار فروش نے فون کیا اور کہا کہ آپ نے ایٹمی دھماکوں سے بہت دن پہلے لکھ دیا تھا کہ دھماکے ضرور ہونگے اور 28مئی 1998کو بھی آپ نے یہ کالم لکھا کہ دھماکے کرنا ضروری ہے، اسلام آباد میں آل پاکستان اخبار فروش یونین کی ایک تقریب بھی ہوئی تھی جس میں آپ نے اور مجید نظامی مرحوم نے اپنی تقریروں میں ان افراد کو للکارا تھا جو ایٹمی دھماکوں کے مخالف تھے لہٰذا آپ نئی نسل کو ضرور بتائیں کہ 1998میں ایٹمی دھماکوں کا کون مخالف اور کون حامی؟
بزرگ اخبار فروش کی فرمائش سن کر میں نے مئی 1998ءکے کالموں کی فائل تلاش کی۔ بھارت نے 11مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکا کیا اور 12مئی 1998ءکو میرے کالم کا عنوان تھا ’’تھینک یو مسٹر واجپائی‘‘ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو واجپائی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو بھی دھماکے کا جواز مہیا کر دیا ہے۔
جب بھارت نے دھماکا کیا تو وزیراعظم نواز شریف قازقستان کے شہر الماتے میں تھے۔ انہوں نے وہاں سے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو فون کیا اور کہا کہ آپ ایٹمی دھماکوں کی تیاری کریں۔ جنرل جہانگیر کرامت نے یس سر یا اوکے نہیں کہا بلکہ یہ گزارش کی کہ آپ واپس پاکستان آجائیں، کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین الماتے میں نواز شریف کیساتھ تھے۔ نواز شریف نے مشاہد حسین سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
مشاہد حسین نے نواز شریف سے کہا کہ تاریخ نے آپ کو موقع دیدیا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیں Now or Never(اب یا کبھی نہیں ) والی صورتحال ہے لہٰذا آپ بھارت کے کڑاکے نکال دیں۔ نواز شریف قازقستان سے واپس اسلام آباد پہنچے تو ایئرپورٹ سے وزیراعظم ہائوس جاتے ہوئے پی ٹی وی کے چیئرمین سنیٹر پرویز رشید انکے ہمراہ تھے۔
پرویز رشید نے ان سے پوچھا کہ ایٹمی دھماکوں پر ہمیں کیا پالیسی رکھنی چاہئے؟ نواز شریف نے انہیں کہا کہ قوم کو قربانی کیلئے تیار کریں کیونکہ اگر ہم نے دھماکے کر دیئے تو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں جس سے یہ تاثر ملا کہ نواز شریف ذہنی طور پر دھماکوں کا فیصلہ کر چکے تھے۔ پھر وزیراعظم ہائوس میں سینئر صحافیوں کیساتھ نواز شریف کی ایک ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات میں مجید نظامی صاحب نے کہا تھا کہ نواز شریف صاحب اگر آپ نے ایٹمی دھماکا نہ کیا تو یہ قوم آپ کا دھماکا کر دے گی۔ میں نے مجید نظامی صاحب کی تائید کی تھی تاہم ایک خاتون ایڈیٹر کے علاوہ نواز شریف کے قریب شمار ہونیوالے ایک اور سینئر صحافی نے ایٹمی دھماکوں کیخلاف رائے دی۔ دوسری طرف پی ٹی وی پر بھی بحث شروع ہو چکی تھی اور اس بحث میں مجھے اپنی رائے کھل کر ظاہر کرنے کا موقع ملا۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہمیں پتا چل چکا تھا کہ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ کئی سفارتکاروں نے مجھے مل کر کہا کہ آپ ایٹمی دھماکوں کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کریں۔ ہمیں یہ بھی پتا چل گیا کہ وزیر خزانہ سرتاج عزیز سمیت کچھ وزراء دھماکوں کے حامی نہیں تو ہمارا لہجہ سخت ہوتا گیا۔
18مئی 1998کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’میں طوائف نہیں بنوں گی‘‘ اس کالم میں کہا گیا تھا کہ جو کہتے ہیں کہ ہم ایٹمی دھماکوں کے بجائے قرضے معاف کرا لیں یا مراعات حاصل کر لیں وہ ذرا سوچیں کہ پیسوں کیلئے تو طوائف بھی اپنا جسم بیچ دیتی ہے تو ہم ایک بین الاقوامی طوائف کیوں بن جائیں؟
اس دوران ہمیں پتا چل گیا کہ ایٹمی دھماکے بلوچستان کے کسی پہاڑ میں کھودی جانے والی سرنگ میں ہونگے۔ 20مئی 1998ءکو میں نے اپنے کالم میں لکھا ’’بلوچستان میں صرف دھماکے نہ کیجئے‘‘ بلکہ یہاں تعمیر و ترقی پر توجہ دیجئے اور یہاں کے وسائل مقامی لوگوں کو بھی مہیا کئے جائیں۔ 28مئی 1998ءکے تاریخی دن میرے کالم کا عنوان تھا ’’گھاس خوری اور ڈالر خوری‘‘ یہ کالم اخبار فروش یونین کی تقریب حلف وفاداری میں ہونیوالی تقاریر پر تھا۔
اے پی این ایس کے صدر مجید نظامی نے یہاں تقریر کرتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خاں پر بہت تنقید کی تھی کیونکہ انکے بقول چوہدری صاحب ایٹمی دھماکوں کیخلاف تھے۔ اس تقریب میں وفاقی وزیر تجارت اسحاق ڈار اور وزیر مذہبی امور راجہ ظفر الحق بھی موجود تھے اور جب میں نے ایٹمی دھماکوں کی حمایت کی تو ان دونوں نے بھی تالیاں بجا کر میری تائید کی۔
اس تقریب میں سابق وزیراعظم ملک معراج خالد نے کہا کہ ہمیں ایٹمی دھماکوں کے بعد گھاس خوری سے ڈرایا جا رہا ہے لیکن ڈرانے والے خود ڈالر خور ہیں۔ آخرکار اسی شام دھماکا ہوگیا اس دھماکے کا کریڈٹ پاکستان میں جمہوریت کو جاتا ہے۔ عوام کی منتخب جمہوری حکومت نے عوامی دبائو پر دھماکوں کا فیصلہ کیا۔
آرمی چیف جہانگیر کرامت کی کوئی رائے سامنے نہ آئی، نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری دھماکوں کیخلاف تھے۔ ایئرچیف پرویز مہدی قریشی دھماکوں کے حامی تھے اور جس دن دھماکے ہونا تھے شیخ رشید احمد پاکستان سے باہر بھاگ گئے تھے۔ کیوں بھاگ گئے وہ خود بتائیں گے لیکن دھماکوں کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں پوری قوم کا تھا اور قوم کی ترجمانی میں اہم ترین کردار مجید نظامی صاحب کا تھا جنہوں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ آپ نے دھماکا نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکا کر دے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔