بلاگ

حق مغفرت کرے۔۔۔

کراچی میں مسافر جہاز گرگیا یہ خبر ہی کم غمناک نہ تھی کہ پتہ چلا اس میں ایک سینئرصحافی، بھائی اور دوست جیسی شخصیت انصار نقوی بھی سوار تھے۔ 

فون پر بھابی رعنا انصار سے بات ہوئی تو کہہ رہی تھیں کہ دعا کریں وہ محفوظ ہوں جس پر میں نے کہا کہ ہم پتہ کررہے ہیں۔ بعد میں دو مرتبہ بیٹے شاہزیب سے بات ہوئی اور مسعود ظفر اور نوجوان زبیر کے معجزانہ طور پر محفوظ رہنے پر ایک امید بندھ گئی کہ شاید اللہ یہاں بھی کوئی معجزہ دکھادے۔

شام میں رہائش گاہ گیا تو انصار بھائی کی بیٹی رشبہ کے سوالوں پر میرے پاس سوائے تسلی اور صبر کرنے کی تلقین کے علاوہ کوئی الفاظ نہ تھے۔ جب ان کی لاڈلی بیٹی نے روتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ آپ روز پوچھتے تھے "بابا کیسے ہیں اب میں کیا جواب دوں گی" اور میں اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر صرف صبر کی تلقین کے سوا کوئی جواب نہ دے سکا۔ 

ان کے بیٹے شہریار نے بتایا کہ بابا تو بذریعہ سڑک آرہے تھے لیکن غیرمتوقع طور پر فلائٹ مل گئی،  کیا پتہ تھا یہ پرواز ان کی اپنے مالک حقیقی کی طرف ہے۔

انصار نقوی سینئر ہی نہیں بلکہ ایک بھائی اور دوست کی طرح تھےجیونیوز کے بانی اراکین میں سے تھے۔ روزنامہ دی نیوز سے کئی برسوں تک وابستہ رہنے والے انصار نقوی  جب ابتداء میں ہی جیو کی پہلی ٹیم میں شامل ہوئے تو میرا ان سے تعارف ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے مئی سال 2002 ہوٹل آواری ٹاور میں ہم سب پاکستان کے پہلے سیٹلائیٹ نیوز چینل کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے جمع ہوئے۔

وہاں ہمیں مختلف گروپس میں تقسیم کرکے کلاسوں میں تربیت شروع ہوئی۔ چائے کے وقفےمیں پہلی مرتبہ انصار نقوی سے تفصیلی تعارف ہوا۔ اس سے پہلے ان سے دی نیوز کے حیدرآباد میں رپورٹر کی حیثیت سے شناسائی واجبی سی تھی لیکن جیو نیوز میں ایک خاندان کی طرح ہم اکھٹے تھے۔ تربیتی مراحل کے دوران ہم گھنٹوں اکھٹے رہے اکثر ہم تین چار لوگ رات میں اپنے چینل کی مصروفیت سے فارغ ہوکر پیدل ہی صدر کے علاقے میں کسی ہوٹل پر کھانا کھاتے اور ہنسی مذاق کیا کرتے تھے۔

کئی مرتبہ رات کوچینل کے تربیتی مقام یا جنگ بلڈنگ منتقل ہونے کے بعد وہاں سے نکلتے ہوئے کبھی کبھی اپنی موٹر سائیکل یا ایف ایکس پر انہیں عارضی رہائش ریجنٹ پلازہ چھوڑا کرتا تھا۔ وہ نیوز روم میں ابتدائی دنوں میں سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر اور پروڈیوسر کے فرائض انجام دیا کرتے ہیں اور کئی مرتبہ اسکرپٹ اور پروڈکشن کے معاملات پر رپورٹرز کے ساتھ بحث و مباحثہ ہوا کرتا اور پھر وہ قائل کرکے مسکراتے ہوئے کہتے بس یہ دو تین پوائنٹس شامل کردو باقی ٹھیک ہے۔ 

رات دیر تک پروڈکشن میں نیوز پیکجز کو چیک کرتے دیکھا اور آخر میں اپنےمخصوص انداز میں لیپ ٹاپ کا بیگ کاندھے پر لٹکا کر بلڈنگ سے نکل جاتے۔ دبئی میں انصاربھائی کے ساتھ ٹرانسمیشن سینٹر کے نیوز روم میں بھی کام کیا اور وہ بھی کیا دن تھے جب ہم بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرتے اور بعد میں جب ہوٹل پہنچتےتو سب ساتھ کسی نہ کسی کمرے میں کھانے یا چائے پر جمع ہوتے اور پھر رات کو پھر دبئی کی سڑکیں ناپتے اور صحافت سمیت کئی موضوعات پر بات کرتے۔ 

جنگ بلڈنگ میں چھٹے فلور پر سینٹرل نیوز میں سالوں ایک ساتھ کام کیا، اس دوران کئی باتوں پر اختلافات رہے ہوں گے لیکن یہ کام کا حصہ تھا۔ انہوں نے کئی بار حلیم کی دعوت پر حیدرآباد مدعو کیا اور کراچی منتقل ہونے اور جیو سے چلے جانے کے بعد بھی ان سے ملاقاتیں رہیں۔

 جب پرانے اور نئے دوست سینئر جونیئرز سب جمع ہوتے تو خاص طور جیو نیوز کے دوست عقیل رانا کو گھوڑے کے کاٹنے کا قصہ وہ بڑے مزے سے سنایا کرتے تھے۔ جیو نیوز اور دیگر خبر رساں اداروں کے دوستوں کے غم یا خوشی میں وہ ضرور ساتھ ہوا کرتے تھے۔ نیوز روم کے سینئرپروڈیوسر کامران فاروقی سے ان کی قربت زیادہ تھی ایک اچھا بھائِی اور دوست کامران بھی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد آخری مرتبہ کچھ ماہ قبل فون پر بات ہوئی تو انصار بھائی کہنے لگے یار لاہور سے آؤں گا تو سب دوستوں کو جمع کرتے ہیں بہت عرصہ ہوا کوئی لمبی نشست نہیں ہو پارہی۔ لیکن یہ کسے پتہ تھا کہ اب ہم کبھی مل نہیں سکیں گے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔