غیریقینی حالات، مستقبل کی پریشانی

 مستقبل کی خوفناک پریشانیوں پہ کوئی کیسے غور کرے جب حریفانہ اور کینہ پرور سیاست کا بول بالا ہو—فوٹو رائٹرز

ابھی دس روز پہلے، ہم پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ایمرجنسی وارڈ میں کھڑے تھے۔ دس گیارہ لوگ ہمارے دیکھتے دیکھتے اللہ کو پیارے ہوئے، کسی نے کوئی ٹیسٹ نہ کیا کہ وہ کیوں کوچ کر گئے۔ کورونا کے ہاتھوں یا دل کے ہاتھوں ہم بھی اپنے عزیز ترین دوست اور برادرِ نسبتی رانا شفیق الرحمٰن کی لاش لے کر گھر لوٹے، یہ معلوم ہوئے بغیر کہ وہ کورونا کا شکار ہوئے یا دل کے عارضہ کی نذر۔ عجب آزاد مرد تھا۔

وہ جو زندگی بھر آلودگی کے خاتمے، نامیاتی زراعت کے فروغ اور انسانی نجات کے لیے جدوجہد کرتا رہا۔ حق مغفرت کرے۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ بس یہ ایک طرح کا فلو یا نزلہ ہے اور زیادہ فکر کی بات نہیں۔

مگر فکر کی بات یہ ہے کہ جوں جوں کورونا وائرس کی مارا ماری بڑھی، ہم نیم لاک ڈائون کو کھولتے چلے گئے اس کے باوجود کہ محکمہ صحت نے صرف لاہور میں سات لاکھ کے قریب لوگوں کے کورونا کا شکار ہونے کی پیشین گوئی کی تھی اور لاک ڈائون کو سخت تر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اب ہم کورونا وائرس کی جنم بھومی چین سے آگے جا چکے ہیں اور متاثرین و مرحومین کی تعداد ہے کہ بڑھتی جاتی ہے اور ہماری سرکار مطمئن ہے کہ اُن کے اندازے سے معاملہ بہت کم سنگین ہے۔ جانے ہزاروں کے مرنے پہ سنگینی کا احساس ہوگا یا پھر کاروباروں کی رونق کی بحالی کے لیے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُترتے دیکھا جائے گا۔ نام تو غریبوں کا لیا جا رہا ہے، لیکن سارے کام کاروباریوں کے مفاد میں کیے جا رہے ہیں۔

اور ایسے وقت میں جب بے پیندے کی پاکستانی دست نگر اور لوٹ کی معیشت آخری سسکیاں لے رہی ہے۔ معیشت تو انصاف والوں کے ہاتھوں پہلے ہی 5.8 فیصد کی شرحِ نمو سے تبدیلی کے دور میں 1.9فیصد پہ آن گری تھی اور کورونا کی آفت سے پہلے ہی کوئی ہدف حاصل نہ کیا جا سکا تھا۔ ٹیکس اکٹھے ہوئے نہ برآمدات بڑھیں، غیرپیداواری خرچے کم ہوئے نہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز کے نا ختم ہونے والے گھاٹے۔

پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو تھی پبلک سیکٹر میں انتظامی اصلاحات سے ان اداروں کو منافع بخش کرنے، لیکن ان کے نقصانات ایک کھرب روپے سے تجاوز کر گئے اور اب اگر اصلاح کی توفیق ہوئی بھی ہے تو الٹی طرف سے، اسٹیل ملز کے 9 ہزار سے زائد مزدوروں کو فارغ کر کے۔ جیسے کورونا کے ہاتھوں اُجرتی مزدوروں کے بیروزگار ہونے پر ٹسوے تو بہائے گئے لیکن ہم نے صرف کاروباروں کو کھلتے دیکھا اور مزدوروں کو اُجرتیں دیئے بغیر۔

لوگ بچ پا رہے ہیں نہ کاروبار۔ 77غریب ملکوں کو اِسی سال 62 ارب ڈالرز قرض و سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوں گے، جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق قرض خور ممالک کو ڈھائی کھرب ڈالرز چاہئیں، جن میں پاکستان کو بھی تقریباً 15 ارب ڈالرز درکار ہیں۔ 36 غریب ملکوں نے قرضوں کی ادائیگی معطل کرنے کی درخواست دی ہے۔ G-20 گروپ اور عالمی مالیاتی اداروں نے قرضوں کی ادائیگی کے التوا پہ اتفاق کیا ہے لیکن نجی اور کمرشل قرضوں اور بونڈز کی ادائیگی تو لازم ہوگی وگرنہ یہ ممالک نادہندہ یعنی ڈیفالٹ کا شکار ہو جائیں گے۔

پاکستان کا قرض بھی اس کی کل قومی پیداوار سے تجاوز کر گیا ہے جو گزشتہ برس میں 10کھرب روپے کے اضافے کے ساتھ 40کھرب سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہماری معیشت کا تو کورونا سے پہلے ہی دم نکل گیا تھا اوپر سے کورونا کی آفت ٹوٹ پڑی۔ اب ہماری مجموعی قومی پیداوار 288 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 266 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔

خیر ہو کاسۂ گدائی توڑنے والی حکومت کی جس نے قرض خوری کے تمام گزشتہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ریاستی قرض اور واجبات اب 43000 ارب روپے ہو چکے ہیں جبکہ یہ مسلم لیگ ن کے دور میں 16000ارب اور پی پی پی کے دور میں 6000ارب روپے تھے۔ ایسے میں آئی ایم ایف نے آر ایف آئی کے تحت 1.4 ارب ڈالرز کی ہنگامی امداد فراہم کی تو اب اُس کی شرائط بھی سامنے آ گئی ہیں۔

آئی ایم ایف نے تقاضا کیا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے سوا تمام اخراجات منجمد کر دیئے جائیں جس میں سلامتی و انتظامی، ترقیاتی اور امدادی اخراجات اور تنخواہوں میں کسی طرح کے اضافے کی ممانعت کی شرائط عائد کر دی ہیں تاکہ قرضوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے پرائمری بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے منفی 0.4 فیصد تک محدود کیا جا سکے۔ جبکہ مجموعی بجٹ خسارہ 9 فیصد تک ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ٹیکسوں کا جاری سال کا ہدف پورا کرنے میں بُری طرح ناکامی ہوئی ہے اور اگلے برس 5کھرب کے ٹیکس کون مائی کا لعل کہاں سے پورا کر پائے گا؟

ترقیاتی بجٹ پہلے ہی آدھے سے کم رہ گیا ہے۔ اور تنخواہوں اور اُجرتوں میں روپے کی قدر آدھی ہونے سے جس اضافے کا تقاضا تھا وہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ مزدوروں کی بڑی فیڈریشنز نے کم از کم اُجرت 35 ہزار روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ہماری سول بیوروکریسی بھی تنخواہوں میں سو فیصد اضافے کا تقاضا کر رہی ہے۔

اسی طرح افواج کی تنخواہوں میں اضافے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ پہلے ہی تنخواہوں کا بل 485 ارب روپے اور پنشنز کا بل 470 ارب روپے ہے، جبکہ بھاری بھر کم وفاق اٹھارہویں ترمیم کے باوجود اپنے سائز کو کم کرنے پہ تیار نہیں۔ اوپر سے بھارت اور افغانستان کے حوالے سے سلامتی کے تقاضے اور اُن پر اُٹھنے والے اخراجات کم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

تان ٹوٹ رہی ہے تو ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو کسی طرح اُلٹنے پر، حالانکہ اس ایوارڈ کے آنے سے قبل (2009-10) وفاقی آمدنی سے وفاق کے اخراجات کا 58 فیصد ہی پورا ہو پایا تھا جو، اَب 54 فیصد پہ آگیا ہے۔ مسئلہ صوبوں کے حصہ کا نہیں، وفاق کی نالائقی کا ہے۔

عالمی اور قومی اقتصادی بحران کتنا سنگین تر ہوتا چلا جائے گا، اس کا کسی کو ابھی اندازہ نہیں۔ کورونا نے دُنیا کے رہن سہن اور کاروبار کو بدل کر رکھ دیا ہے جبکہ ہماری بے پیندے کی دست نگر اور فراڑی معیشت آخری دموں پہ ہے۔

چینی مافیا ہو یا ٹیکسٹائل، سیمنٹ، کھاد، خوراک، توانائی اور دیگر اجارہ دار مافیاز ہوں اپنے گھنائونے چلن بدلنے والی نہیں۔ ایسے میں مستقبل کی خوفناک پریشانیوں پہ کوئی کیسے غور کرے جب حریفانہ اور کینہ پرور سیاست کا بول بالا ہو۔ اب کورونا کے ہاتھوں گوشۂ قفس میں بیٹھے دل جلائے رکھنے کے سوا چارہ رہا بھی کیا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔