Time 09 جون ، 2020
بلاگ

پاکستان میں ہلچل مچانے والی غیرملکی خواتین

سنتھیا رچی نے پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں پر ریپ اور مجرمانہ حملوں کے الزام لگائے ہیں—فوٹو انسٹاگرام

امریکی بلاگر اور صحافی سنتھیا ڈی رچی پہلی امریکی خاتون نہیں جس نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی۔

جنگ گروپ اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ تین دہائیاں پہلے ایک اورامریکی ٹیلی ویژن ٹاک شو میزبان، بزنس وومن جون کنگ ہیرنگ(پیدائش1929) نے بھی بالخصوص غیر ملکی اخبارات میں شہ سرخیاں لگوائی تھیں۔

یہ اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق سے پرانے اور سیاسی تعلقات کے حوالے سے تھیں. لیکن ہیرنگ مختلف وجوہ سے خبروں میں تھی۔ سنتھیا رچی نے پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں پر ریپ اور مجرمانہ حملوں کے الزام لگائے ہیں، جن میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، سابق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین شامل ہیں۔

اتفاق سے رچی کی طرح جون ہیرنگ کا تعلق بھی امریکی ریاست ٹیکساس سے تھا.دونوں نے میڈیا میں کام کیا اور دونوں کی رسائی پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں کی راہداریوں تک تھی.

جون ہیرنگ نےہوسٹن کے پاکستانی قونصل خانے میں اعزازی قونصل کے طور پر بھی کام کیا اور ان کی خدمات پر انہیں صدر پاکستان کی طرف سے قائد اعظم میڈل بھی عطا کیا گیا. موقرامریکی جریدے فوربز نے جنرل ضیا الحق کی سالگرہ پر اپنے 12اگست 2014 کے شمارے میں لکھا تھا کہ جنرل ضیاءالحق نے دفتر خارجہ کے پروٹوکول کے خلاف ان کا تقرر کیا.

ان دنوں سخت پابندیوں اور سنسر شپ کی وجہ سے جون ہیرنگ کی سرگرمیاں پاکستانی اخبارات میں جگہ نہ پاسکیں. کئی تاریخ دان، صحافی اور مصنف 1980 کے عشرے میں لکھتے رہے ہیں کہ دلکش جون ہیرنگ نے امریکی رکن کانگریس کی معاون کے طور پر تقریبا"اکیلے ہی اپنی کوششوں سے افغانستان میں مجاہدین کی حمایت اور امداد حاصل کی.

ہیرنگ نے ہی چارلی ولسن کو قائل. کیا کہ وہ امریکی حکومت کو مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ دینے پر آمادہ کریں. اس طرح وہ1979 کی افغان سوویت جنگ لڑسکے. ہیرنگ کا ضیا الحق سے تعارف 1970 کے عشرے میں اس وقت ہوا تھا جب وہ اردن میں پاکستانی فوج کے کمانڈر تھے.

1980میں جنرل ضیاءالحق نے اسلام آباد میں جون ہیرنگ کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا.

ہیرنگ نے کئی موقعوں پر جنرل ضیاءالحق کے اقدامات کا دفاع کیا. 2011 میں شائع ہونے والی اپنی آٹو بایو گرافی “Diplomacyand Diamonds: My wars from the ballroom to the battlefieldʼʼ میں ہیرنگ نے لکھا، "ذوالفقار علی بھٹو پر مقدمہ خود ان کے ججوں نے سنا اور قتل پر سزا سنائی.

قرآن مجید پاکستان کا غیر سرکاری آئین ہے. اس میں کہا گیا ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت. قتل کروگے تو تمہیں بھی مرنا ہوگا.

ضیا نے صرف اتنا کیا کہ سزا معاف نہیں کی. ایسے ملک میں جہاں آئین قتل کیلئے سزائے موت کا تقاضا کرتا ہو، ضیا آئین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا. ممتاز امریکی صحافی جارج کرل نےاپنی کتاب “Charlie Wilson’s War,” میں لکھا ہیرنگ صدر ضیا کی حکومت میں انتہائی معتمد امریکی مشیر سمجھی جاتی تھیں.

انہوں نے امریکی سیاستدان چارلی ولسن اور ضیاءالحق میں تعلقات بنوائے، چارلی ولسن نے بعد میں پاکستان کی کمیونسٹ مخالف پالیسیوں کیلئے بھاری فنڈنگ حاصل کیں.

ہیرنگ کا ضیاءالحق اور ان کی فوجی انتظامیہ پر اثر اتنا بڑھ گیا کہ ضیا ان کی کال سننے کیلئے کابینہ کا اجلاس روک دیتے تھے. .سابق وزیر خارجہ جنرل ریٹائرڈ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے اپنی “Strategy, diplomacy, humanity: Life and work of Sahabzada Yaqub Khan"میں لکھا اسے ان کا پورا اعتماد حاصل تھا،خوفناک حد تک.

متنازع پاکستانی سفارت کار حسین حقانی نے ہیرنگ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ سیاسی بصیرت سے زیادہ اپنی دلکشی سے جانی جاتی تھیں. ضیا نے اس کے رابطے اور تعلقات استعمال کرنے کیلئے اس پر نوازشات کی بارش کردی.

وہ اس ملک کو بہت کم جانتی تھی، اپنی یادداشتوں کی کتاب میں پاکستان کو عرب ملک لکھا۔

ہیرنگ کی عمر اس وقت 91 برس ہے. 2007 میں بننے والی فلم چارلی ولسن وارز میں ہیرنگ کا کردار اداکارہ جولیا رابرٹس نے کیا.

نائن الیون کے بعد سے ہیرنگ یہ کہتی آرہی ہےکہ القاعدہ اس نے نہیں بنائی اور وہ مستقبل کا اندازہ نہیں کرسکتی تھی.

(حوالہ برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں صحافی فلپ شیرول کا مضمون دسمبر 2007،جون ہیرنگ کی آٹو بایو گرافی،سما سروہی کا آؤٹ لک انڈیا اگست 2003، میں مضمون، حسین حقانی کی کتاب “Magnificent Delusions”) ان دو امریکی عورتوں سنتھیا رچی اور جون ہیرنگ کے علاوہ بھی کے علاوہ بھی دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا لازمی حصہ ہیں. ان میں پاکستان کے پہلے صدر اور چوتھے گورنر جنرل اسکندر مرزا(1899.1969) کی دوسری بیوی ناہید مرزا(1919.2019( شامل ہیں.

وہ ایرانی تھیں..اسکندر مرزا ان کی محبت میں گرفتار ہوئے اور اکتوبر 1954 میں کراچی میں ان کی شادی ہوئی.اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ناہید بیگم نصرت اصفہانی بھٹو کی سہیلی تھیں. اسی دوستی کے نتیجے میں ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے میدان سیاست میں آئے. یہ حقائق اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی کتاب“From Plassey to Pakistan: The family history of Iskander Mirza.”میں درج ہیں.

ہمایوں مرزا لکھتے ہیں ناہید اسکندر، نصرت بھٹو کی رشتے میں کزن بھی تھیں. نصرت ناہید سے پندرہ سال چھوٹی تھیں لیکن ان کی شادی ناہید سے چند سال پہلے ستمبر1951 میں ہوگئی تھی.

سماء ٹی وی نے 25 جنوری 2019 میں ناہید اسکندر کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے بتایا تھاکہ کتاب کے مطابق ناہید صدر اسندر مرزا کی دوسری بیوی تھیں ان کی شادی ان صاحبزادےانور مرزا کے ہوائی حادثے میں انتقال کے بعد ہوئی تھی.

جب ان کی پہلی ملاقات ہوئی وہ ایرانی ملٹری اتاشی لیفٹننت کرنل افغامی کی اہلیہ.تھیں. احمد یار خان ان سائڈبلوچستان میں لکھتے ہیں میر جاوہ جو پاکستان اور ایران کے درمیان بڑا کراسنگ پوائنٹ ہے، اسکندر مرزا کے دور میں ایران کو دیا گیا.

اس میں ناہید مرزا کا اہم. کردار تھا. مورخین کے مطابق ناہید مرزا نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کا اسکندر مرزا اور ایوب خان سے تعارف کرایا. ایک اور سابق وزیراعظم فیروز خان نون نے اپنی کتاب فرام میموری میں لکھا اسکندر مرزا کا کوئی تذکرہ ان کی خوبصورت اور لائق بیگم ناہید کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا.

انہوں نے گھر کو جس سلیقے سے چلایا اور وسیع دسترخوان کا اہتمام کیا، وہ اسکندر مرزا کی مہمان نوازی اور کشادہ دلی کے عین مطابق تھا. سابق خاتون اول نصرت بھٹو کی ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی بار 1949 میں تب ملاقات ہوئی جب وہ برکلے یونیورسٹی امریکہ سے اپنی بہن کی شادی میں شرکت کیلئے کراچی آئے.

کرد ایرانی خاندان سے تعلق رکھنے والی نصرت اصفہانی نے بمبئی کے کانونٹ آف جیسس اینڈ میری سے سینئر کیمبرج پاس کیا تھا، اس کے بعدکالج نہیں گئیں. بیگم نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کے دور اقتدار میں سیاسی کردار بھی ادا کیا. وہ کابینہ میں بھی شامل رہیں.

جب ضیاءالحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر انہیں قید کردیا تو بیگم بھٹو کے پاس یہ راستے تھے کہ یا تو وہ بیرون ملک چلی جائیں یا پاکستان میں رہیں لیکن سیاست سے الگ.

.نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کا ورثہ سنبھالنے اور ان کی رہائی کیلئے جدوجہد کا فیصلہ کیا. جب بہت سے اہم سیاستدان پیپلز پارٹی چھوڑ گئے تھے، نصرت بھٹو نے پارٹی کے وفاداریوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کی. 1970 اور 1980 کے عشروں میں انہیں اور ان کی بیٹی بے نظیر کو باربار گرفتار کیا گیا یا گھر پر نظر بند کیا گیا.

1979 میں ان کے شوہر کو پھانسی دئیے جانے کے بعد انہیں ان کی آخری رسوم میں بھی شریک نہیں ہونے دیا گیا.

آخر میں آتے ہیں موجودہ وزیراعظم عمران خاں کی پہلی بیوی جمائما خاں کی طرف. جمیمامارسل گولڈ سمتھ کو بھی ورلڈ کپ جیتنے والے ہیرو شادی سے پہلے اور بعد بہت شہرت ملی.

وہ برطانیہ کی ٹی وی، فلم ڈاکومنٹری پروڈیوسر، ایک ٹیلی ویژن پروڈکشن کمپنی انسٹنکٹ پروڈکشن کی بانی، اور صحافی تھیں جوسیاسی اور ثقافتی جریدے نیو سٹیٹسمین کی ایسوسی ایٹ ایڈیٹر اور مقبول جریدے وینٹی فئیر کی یورپین ایڈیٹر ایٹ لارج رہیں. ان کی 21 جون 1995 کو شادی ہوئی لیکن 22 جون 2004 کو ان کی طلاق کا اعلان کردیا گیا.

اس طرح ان کا 9 سالہ ساتھ ختم ہوا. لیکن جمائما نے دسمبر 2014 میں اس وقت تک اپنے نام سے خان کا لفظ نہیں ہٹایا جب عمران خان نے ایک نیوز اینکر ریحام خاں سے شادی نہیں کرلی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔