21 جون ، 2020
عمران خان نے کہا ہے .......
’’مغربی طور طریقوں اور بیرونی کلچر سے ہماری اقدار کو خطرہ ہے‘‘ہم بہت سی باتیں سوچے سمجھے بغیر ہی کر جاتے ہیں کیونکہ یہ بھی ہماری ’’اقدار‘‘ کا حصہ ہے کہ ہماری اقدار کی بھی دو اقسام ہیں۔
اقدار کی ایک قسم وہ ہے جو قصوں، کہانیوں، خوابوں، خیالوں، خواہشوں، روایتوں اور گفتگوؤں میں پائی جاتی ہے جبکہ اقدار کی دوسری اور اصلی قسم وہ ہے جو قدم قدم پر روز مرہ کی پریکٹس میں دیکھی جاسکتی بلکہ بھگتی جاتی ہے ۔
ابھی کل تک تو حکومتی کل پرزے کورونا کے حوالہ سے لوگوں کو غیر ذمہ دار، ڈسپلن سے عاری، غیر سنجیدہ اور جاہل قرار دے رہے تھے یہ راتوں رات اور باتوں بات کیا ہوگیا؟
وزیراعظم کے اس فرمان عالی میں تین لفظ فیصلہ کن اور قابل غور ہیں۔
اول:طور طریقے
دوم:بیرونی کلچر
سوم:ہماری اقدار
مغربی طور طریقے کیا ہیں؟وہ مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیل نہیں بناتے، ہم بناتے ہیں، وہ ایمبولینس ایجاد کرتے ہیں، ہم غیروں سے تحفے میں ملی ایمبولینسز کا قیمتی سامان نوچ کر انہیں ویگنوں کے طور پر چلا کر مال بناتے ہیں۔
ان کے لیڈر بیرون ملک جائیدادیں نہیں خریدتے جبکہ ہماری اشرافیہ ڈھٹائی سے یہ کام کرتی ہی نہیں، اس مکروہ حرکت کا دفاع کرنے کو بھی اپنا آئینی وجمہوری حق سمجھتی ہے، وہ کرسمس تو کیا عیدوں پر بھی چیزیں سستی کر دیتے ہیں جبکہ ہم رمضان المبارک سے لیکر عیدین تک کو کمائی مہنگائی کا سیزن سمجھتے ہیں۔
جھوٹ وہاں ’’وے آف لائف‘‘ ہرگز نہیں، ہمارے لئے’’ آکسیجن کا سا درجہ رکھتا ہے‘‘و ہاں چھابڑی والے کے سودے میں بھی ملاوٹ نہیں ہوتی جبکہ ہمارے نام نہاد فائیو سٹار ہوٹلوں پر بھی چھاپہ پڑے تو گندگی کے ڈھیر برآمد ہوتے ہیں، وہاں دودھ بھینسیں ،گائیں ’’بناتی‘‘ ہیں یہاں کیمیکل سے بنتا ہے، وہاں گوشت حرام جانور کا بھی ہو ’’خالص‘‘ ہوتا ہے یہاں حلال جانوروں میں بھی پانی انجیکٹ کرکے اس کا وزن ہی نہیں بڑھایا جاتا بلکہ مردہ گدھوں کو بکرے بنا کربھی بیچ دیا جاتا ہے۔
وہاں عوامی نمائندوں کی ننگی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوتی جبکہ یہاں یہ پوتر تجارت کل کی بات ہے۔ وہاں میں نے کبھی یہ محاورہ نہیں سنا کہ وکیل کیا کرنا جج ہی کرلو، یہاں ہم بچپن سے ہی اس فلاسفی یا ٹیکنالوجی سے متعارف ہوجاتے ہیں، ان کے سکولوں میں بچے اٹھلاتے پھرتے ہیں ہمارے سکولوں میں مویشی باندھے جاتے ہیں، وہ جتنے بھی ’’پورنو‘‘ ہیں صاف ، سیدھے، سامنے اور غیر منافق ہیں جبکہ ہم ’’پاکیزہ‘‘ پورنوسائیٹس میں وکٹری سٹینڈ پر نمایاں ترین ہیں۔
وہاں آدھی رات اکیلا ڈرائیور ویران سنسان سڑک پر بھی ٹریفک سگنل کی سنتا مانتا ہے، ہم دن دہاڑے اس کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، وہاں جھوٹی گواہی کا تصور تک نہیں جبکہ ہماری زیریں عدالتوں میں یہ اک باقاعدہ پیشہ ہے، وہ جہاز سے لیکر ریل تک ایجاد کرتے ہیں ہم پی آئی اور ریلوے کو کباڑ خانوں میں تبدیل کردیتے ہیں، ان کے طور طریقوں میں گھوسٹ سکول شامل نہیں، ہمیں ان کی تلاش اور نشاندہی کیلئے فوج سے مدد لینا پڑتی ہے۔
ابھی چند سال پہلے تک میں ’’فخر‘‘ سے کہا کرتا تھا کہ کچھ اور نہیں لیکن ہمارے ہاں انڈے بالکل ’’خالص‘‘ ملتے ہیں ۔چشم بددور پھر کچھوئوں کے انڈوں کا ذکر سنا اور اب تو منڈی میں باقاعدہ جعلی انڈوں کی بھرمار ہے اور شرطیہ اصلی شہد فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے اور ایک سابق وزیر اعلیٰ کا یہ فرمان پاکستان کے ہر چوراہا میں لٹکا ہونا چاہئے کہ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔
جعلی ہو یا اصلی‘‘صدقے جاواں ’’طورطریقوں‘‘ کے کہ جہاں پلازمے بکتے ہوں، لائف سیونگ انجیکشنز اور دوائیں بلیک ہوتی ہوں ...اور تو اور ’’ضمیر‘‘بھی قابل فروخت ہوں وہاں بھی مغربی طور طریقوں کے طعنے دیئے جا رہے ہیں ۔یہ سب تو دیگ کے صرف چند زہریلے دانے ہیں جو انتہائی عجلت میں پیش کر دیئے کہ کالم بھیجنے کا وقت جمہوریت کی طرح ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔
پوری دیگ الٹ دوں تو معدہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جواب دے جائے ۔یہ کوئی یہودوہنود نہیں ہم ہی ہیں ، ہمارے غیر مغربی طور طریقے ہی ہیں جنہوں نے قائد کے پاکستان کو ’’ٹی ٹی پورہ‘‘ ...’’کمیشن نگر‘‘... ’’راشستان‘‘ ... ’’بھاشستان‘‘ اور ’’میرٹ گھاٹ‘‘بنا کر رکھ دیا اور اوپر سے پھر ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ کا ورد بھی جاری ہے جبکہ میں سالوں سے سینہ کوبی کر رہا ہوں کہ اجڑی ہوئی اقتصادیات نہیں، بربادشدہ اخلاقیات ہمارا بنیادی مرض ہے۔
رہ گیا بیرونی کلچر تو بھائی !اب یہ سب کچھ گلوبل کلچر کی لپیٹ میں ہے ۔سائنس، ٹیکنالوجی اور کلچر اب علیحدہ نہیں، کوئی ’’ستھن کرتے‘‘ یا ’’نہاری پاوے‘‘ کو کلچر سمجھ لے تو میں اس کا کیا بگاڑ لوں گا ورنہ صبح ہوتی ہے کموڈ پر، کپڑے پہنے مشینوں پر بنے، ناشتہ پولٹری کے انڈوں سے، کرنا میز کرسی پر، جانا موٹر سائیکل ویگن رکشے یا موٹر کار پر، استعمال کرنی بجلی اور سیل فون، رکھنے لیپ ٹاپ، دیکھنے ٹیلی وژن، خون ٹیسٹ کرانا ان کی ٹیکنالوجی کے آسرے،عمرے کرنے جہازوں پر، اذانیں دینی لاؤڈ سپیکر پر، بچے پڑھانے اون لائن، رونا وینٹی لیٹرز کو، پہنچے ایکسرے مشین سے ایم آر آئی مشین تک، اپنے کینسر ہسپتال میں ہے کوئی مقامی مشین جو ’’مقامی‘‘ اور ’’ہماری اقدار‘‘ نے تیار کی ہو؟ہم تو وہ ہیں جو کنواں ٹیکنالوجی پر زندہ تھے اور ہینڈپمپ کو ’’بمبا‘‘کہہ کر حیران ہوئے اور ہمارا ایک جینئس گورے کی ماچس دیکھ کر چیخا’’کیسے لوگ ہیں جو آگ جیبوں میں لئے پھرتے ہیں‘‘ ہم نے تو انجکشن کا بھی مذاق اڑایا اور ٹریکٹر کو اپنے خلاف ’’سازش‘‘ کہا کہ ہماری زمینیں جلادے گا۔
خدارا!اپنی کمزوریوں پر فوکس کرو تاکہ انہیں مضبوطیوں میں بدل سکو، اپنی کجیوں پر غور کرو تاکہ انہیں رفع دفع کر سکو۔خود کو خواہ مخوا گلوریفائی کرنا گلوٹین میں سر دینے کے برابر ہے اور سر ؟
آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔