15 اگست ، 2020
تمام آنکھیں اب وزیر اعظم عمران خان پر مرکوز ہیں جنہوں نے گزشتہ چند دنوں میں کراچی کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا ہے جن سے مشارت ہوئی ان میں ان کی قانونی ٹیم اور کراچی سے ان کی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی شامل ہیں۔
آئینی اور قانونی تحفظ کے تحت مختلف ممکنات پر غور ہوا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جن کی جماعت سندھ میں برسدر اقتدار ہے ،انہوں نے وفاق کو خبردار کیا ہے کہ سندھ کے امور میں مداخلت کے ذریعہ کوئی ایڈونچر نہ کرے ۔
اگر کراچی کی حیثیت تبدیل کر نے کی کوشش کی گئی تو اسے شہر پر قبضہ تصور کیا جائے گا اور ایسی کسی کوشش کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ میئر کراچی وسیم اختر جن کے عہدے کی معیاد 28 اگست کو مکمل ہو جائے گی، انہوں نے وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومتوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے مقامی حکومتوں کا بااختیار بنانے کا معاملہ حل نہیں کیا اور مطالبہ کیاکہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں نمایاں تبدیلیاں لائی جائیں۔
یہ سہ فریقی تنازع بڑے عرصہ سے کراچی کے مسئلہ کے حل سے زیادہ اس کا حصہ ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سےاور خصوصاَ 2011 سے سپریم کورٹ نے کراچی کے مسئل مسائل کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس کارروائی کے تحت کراچی میں امن و امان کے معاملے کو اٹھایا ،کراچی کے مسائل ہنوز حل نہیں ہو ئے۔ زیادہ تر حکومتوں کی توجہ عبوری اور عارضی اقدامات پر مرکوز رہی ۔
کراچی کو انتظامی اور سیاسی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ یہ عروس البلاد مختلف مافیاز کے شکنجے میں رہا۔ امن و امان کے علاوہ بجلی، پانی ، گیس جیسی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان رہا، تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نا اہلی کے باعث مسائل کے حل میں ناکام رہے۔
شہر کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ سیاسی طور پر کراچی والوں کو شہر کے ڈومیسائل پر ملازمتوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا رہا۔ مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ میں ملازمتیں نہیں مل رہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ مافیاز نے قیمتی زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے اور یہ قبضے چھڑانا اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔ان مافیاز کی وجہ ہی سے ابھی تک کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہویا عظیم تر آب رسانی منصوبہ کے۔فور یا گرین لائن بس پروجیکٹ یا سرکلر ریلوے کی بحالی ،کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں فراہمی آب کا کوئی مسئلہ نہیں، خرابی تقسیم آب کے نظام میں ہے اگر واٹربورڈ،کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کے اپنے واٹر ٹینکرز ہیں تو انہیں تین ہزار سے چھ ہزار روپے فی ٹینکر پانی فروخت کر نے کے لیے کس نے دیا ؟کراچی میں 38 بڑے اور 500 چھوٹے نالے ہیں جنہیں حکومت سندھ صاف کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہو ئی اس ابتری کی بلدیاتی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔
سپریم کورٹ نے تین ماہ کے اندر نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کا کام این ڈی ایم اے کے حوالے کر دیا۔ تقریباَ بیس سال قبل ورلڈ بینک نے سیلابی اور بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام تجویز کیا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ انٹرنیشنل ڈونرز نے اس مد میں فنڈز فراہم کئے ہیں نہیں ۔کراچی کے مسائل کا حل طاقتور بلدیاتی نظام میں مضمر ہے ۔اب یہ حکومت سندھ اور بلاول بھٹو زرداری کے لیے بھی وقت ہے کہ وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لیں اور اس شق کو لاگو کریں جس کے تحت مالی، سیاسی اور انتطامی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل ہو تے ہیں۔