Time 20 اگست ، 2020
بلاگ

قیادت نہیں، پہلے خود کفالت کا سوچو

چند روز قبل صدر مملکت پیدل بلکہ ننگے پاؤں جاکر دور سے یہ کوڑی لائے کہ اگر پاکستان کی معیشت سنبھل جائے تو وہ عالم اسلام کی قیادت کر سکتا ہے—فوٹو فائل 

چند روز قبل صدر مملکت پیدل بلکہ ننگے پاؤں جاکر دور سے یہ کوڑی لائے کہ اگر پاکستان کی معیشت سنبھل جائے تو وہ عالم اسلام کی قیادت کر سکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے باکسنگ گلوز خریدنے سے پہلے ہی بندہ باکسنگ کا عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن بننے کے خواب دیکھنے لگے لیکن کیا کریں کہ ہمارا اجتماعی مزاج ہی کچھ اس قسم کا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ قیادت کے 104بخار سے بچتے ہوئے ’’خودکفالت‘‘ پر نظر رکھیں کہ ہم جیسے کشکول سے ہی جان چھڑالیں تو بڑی بات ہے کیونکہ ہمارا تو سفر ہی ریورس کا ہے۔

پاکستان بنا تو بےشک دفتروں میں کامن پن تک موجود نہیں تھی، لٹے پٹے، اجڑے پجڑے، زخموں سے چور چور تھے لیکن کسی کا دینا کچھ نہیں تھا بلکہ بھارت ہمارا ’’مقروض‘‘ تھا کیونکہ ہمارے حصہ کا مال دبائے بیٹھا تھا جس پر گاندھی نے اعتراض بھی کیا۔پھر کیا ہوا؟

سیانوں نے وارننگ دی کہ اگر اس ملک میں قرضہ کلچر چل نکلا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں قرضوں کی قسطیں چکانے کیلئے بھی قرض لینا پڑے گا لیکن ’’عقل کل‘‘ قسم کے حکمرانوں کو بات سمجھ نہ آئی کیونکہ ہمارے حکمرانوں میں اکلوتی قدرمشترک یہ رہی کہ ہر کوئی ’’عقل کل‘‘ ہوتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک بال بال قرضے میں جکڑا ہے اور دھمال ڈالتے ہوئے خواب دیکھ رہے ہیں قیادت کا۔

ہر گنگو تیلی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ راجہ بھوج بننے کے خواب دیکھے لیکن خواب دیکھنے کے بھی کچھ اصول اور ادب آداب ہوتے ہیں۔ پہلے آدمی خود کو مناسب طور پر ’’تھکاتا‘‘ہے تاکہ گہری نیند نصیب ہو،پھر نیند کے اولین مرحلہ سے گزر کر ’’مرحلہ خواب‘‘ میں داخل ہوتا ہے جس کی تکمیل کے بعد اٹھ کر خواب کی تعبیر تلاشنا اور تراشنا شروع کرتا ہے ۔

یہ ’’کاتا اور لے اڑی‘‘ والا رویہ صرف محاوروں کیلئے ہی موزوں ہے۔اس طرح کے خواب دیکھنے سے پہلے چند اور باتوں پر بھی غور کر لینا چاہئے کیونکہ ’’قیادت‘‘ کا شوق پورا کرنے کیلئے صرف معیشت ہرگز کافی نہیں ورنہ اپنی تاریخ ہی دیکھ لیں۔آغاز سفر پہ خود مسلمانوں کی تاریخ ہی پڑھ لیں۔ایک جنگ ایسی بھی تھی کہ پتھریلی زمین پر چلنے کیلئے اکثر کے پائوں میں جوتے نہ تھے۔

مجاہدین نے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ کر جنگ جیتی کیونکہ وہ ہجوم سے ’’امت‘‘ میں تبدیل ہو چکے تھے اور کائنات کی برگزیدہ ترین ہستی انہیں آدمیوں سے انسانوں میں تبدیل کر چکی تھی۔ یہ تو مثال ہی ایسی ہے جس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔آپ آوارہ، بے سمت، وحشی منگولوں کو ہی دیکھ لیں کہ جب ’’ڈسپلن‘‘ اور ’’ٹارگٹ‘‘ جیسے ہتھیاروں سے لیس ہو کر نکلے تو ان کےپلے کیا تھا؟

لیکن پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔اپنے وقت کے نیویارک، بغداد کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی حالانکہ مفتوحین کے پاس دولت کے انبارتھے لیکن وہ اصل رستے سے بھٹک چکے تھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ ’’معیشت‘‘ ہمیشہ سے ایک اہم فیکٹر ضرور ہے لیکن فیصلہ کن فیکٹر کبھی نہیں رہا۔قوموں کے عروج و زوال کی کہانی ذرا مختلف ہے۔

’’عروج‘‘ اور ’’قیادت‘‘ کیلئے باقی تو چھوڑیں، صرف تین باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔کسی بھی قوم کی کامیابی کیلئے جو شرائط لازمی ہیں ان میں ’’پابندی اوقات‘‘ اور ’’ڈسپلن‘‘ کے ساتھ ساتھ صحیح سمت میں ’’محنت‘‘ لازمی ترین ہے اور یہاں ؟؟؟ اشرافیہ سے لیکر عوام تک، سوائے نماز کے شاید ہی کوئی ’’پابندی اوقات‘‘ کو پرِکاہ جتنی اہمیت بھی دیتا ہو جبکہ نماز جیسا پیکیج ہی کوئی نہیں جو پابندی اوقات سے لیکر ڈسپلن تک کی اتم ترین تربیت ہے، اگر کوئی اس کی روح کو دیکھ، سمجھ اور پہچان سکے۔

73سال میں ہمیں ڈھنگ سے سڑک عبور کرنا اور اپنی اپنی ’’لین‘‘ میں رہنا نہیں آیا۔بنیادی احکامات، ہدایات، تعلیمات کی قدم قدم نہیں سانس سانس پر خلاف ورزی کی انتہا یہ کہ جنہیں صدیوں پہلے سمجھایا گیا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ انہیں صرف ہاتھوں کی صفائی پر آمادہ کرنے کیلئے ’’کورونا‘‘ کو زحمت اٹھانی پڑی، پورے میڈیا کو مہم چلانی پڑی تو سائیں لوکو! کون سی قیادت؟ کہاں کی قیادت؟ہو سکے تو کان لپیٹ کر’’خودکفالت‘‘ کے ٹارگٹ پر ہی فوکس رکھو تو تمہاری مہربانی۔

اک آخری بات یہ کہ عالم اسلام کی قیادت کا شوق پالنے سے پہلے، فیتے کاٹنے سے فرصت ملے تو عالم اسلام کی تین ثقہ ترین طاقتوں اور ان کے صدیوں پر محیط تعلقات پر بھی ایک نظر ڈال لیں تو خاصا افاقہ ہو سکتا ہے۔

اول:عرب برادردوم:ایرانی برادر سوم:ترک برادرصرف اس تکون کی تاریخ پر غورفرمالیں اور اس حد تک بے شک نہ جائیں کہ خود ان کے اپنے اندر صدیوں سے کیسے کیسے تضادات موجود ہیں اور انہوں نے خود آپس میں ایک دوسرے کو کس کس طرح ’’بلیڈ‘‘ کیا۔

پلیز! غصہ جانے دیں، ہتھ ذرا ہولا رکھیں اور قرض کی اگلی قسط ادا کرنے کا سوچیں، کروڑوں لوگوں کو صاف پانی پلانے کاسوچیں اور اقبال صاحب کے جو کروڑوں شاہین اسکولوں سے باہر کوؤں جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں ان پر توجہ فرمائیں کہ ہم جیسے خود اپنی ’’قیادت‘‘ ہی ڈھنگ سے کرلیں تو بڑی بات ہے ورنہ خواب فروشی کی دکانیں تو نہ اتوار کو چھٹی کرتی ہیں نہ جمعہ کو بند ہوتی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔