26 اگست ، 2020
میڈیا کا حصہ اور ایک معمولی صحافی ہونے کے ناطے میں آج کے کالم کا آغاز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارسے معذرت سے کرنا چاہوں گا ۔ میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ سیاستدانوں کی طرح ہم اہل صحافت بھی ان کے ساتھ سنگین زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں کیونکہ جن حوالوں سے روز ان پر تنقید ہوتی ہے ، ان حوالوں سے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی وزرائے اعلیٰ میں ان کا نام تیسرے نمبر پرآتا ہے لیکن اہل سیاست اور اہل صحافت نے مل کر ان کو پہلے نمبر پر رکھا ہوا ہے۔
بزدار صاحب کا اس قدر تکرار کے ساتھ تذکرہ ہوتا ہے کہ ان کا نام بے اختیاری، نااہلی اور کچھ نہ کرنے وغیرہ کے لئے ایک استعارہ بن گیا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان سب حوالوں سے ان کا نمبر وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بعد آتا ہے بلکہ بزدارصاحب میں بعض ایسی خوبیاں بھی موجود ہیں ، جن سے وہ دونوں عاری ہیں۔
مثلا بزدار صاحب پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وہ تجربے اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ سفارش سے وزیراعلیٰ بنے اور اس لئے کمزور ہیں ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سفارش سب سے زیادہ تگڑی ہے ۔ وہ سفارش اگر تگڑی نہ ہوتی توجتنا دبائو بزدار صاحب کو ہٹانے کیلئے ڈالا گیا ، اس کا دسواں حصہ بھی اگروزیراعلیٰ بلوچستان یا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے لئے ڈالا جاتا تو کب کی ان کی رخصتی ہوچکی ہوتی لیکن بزدار صاحب ہر طرح کے دبائو کے باوجود جمے ہوئے ہیں۔
اسی طرح محمود خان اور جام کمال بھی عمران خان کے لئے نئے تھے ،محمود خان ایک ایم این اے کی سفارش سے وزیراعلیٰ بنے ہیں جبکہ جام کمال کے سفارشی یا توریٹائرڈ ہوچکے ہیں یا پھر ان کا وہاں سے تبادلہ ہوچکا ہے ۔یوں ان دونوں کی کرسیاں،عثمان بزدارکی نسبت بہت کمزور ہیں لیکن بزدار پلس(محمود خان) اور بزدار ڈبل پلس(جام کمال) کی بجائے ہر وقت لوگ اس شریف آدمی کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور وہ دونوں آرام سے نااہلی کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔
دوسرا اعتراض یہ ہورہا ہے کہ عثمان بزدار کے متوازی کئی وزرائےاعلیٰ کام کررہے ہیں ۔حالانکہ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کی حیثیت کو صرف گورنر ، علیم خان اور چوہدری پرویز الٰہی چیلنج کررہے تھے لیکن ان تینوں کو بزدار صاحب عمران خان کے ذریعے اپنی اپنی جگہ پر لے آئے ہیں۔ اس کے برعکس خیبر پختونخوا میں متوازی وزرائے اعلیٰ کی تعداد نصف درجن جبکہ بلوچستان میں ایک درجن سے زیادہ ہے۔پختونخوا کو پہلے تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان مرکز سے چلاتے ہیں پھر گورنر شاہ فرمان وزیراعظم کے پرانے دوست اور واٹس ایپ پر رابطے میں ہیں لیکن خود وزیراعلیٰ کو وزیراعظم تک پہنچنے کے لئے اعظم خان یا پھر ایک وفاقی وزیر کا چینل استعمال کرنا پڑتا ہے ۔
اسی طرح ارباب شہزاد اور تیمور جھگڑا بھی متوازی وزرائے اعلیٰ ہیں۔دو متوازی وزرائے اعلیٰ (شہرام خان اور عاطف خان عمران خان نے کھڈے لائن لگادئیے لیکن اس میں محمود خان کا براہ راست اپنا کوئی کردار نہیں تھا) تین چار وزرائے اعلیٰ مزید ہیں کہ جن کا نام قوم کے وسیع تر مفاد میں نہیں لیاجاسکتا ۔ اس کے برعکس بلوچستان میں بہت سارے لوگ بطور وزیراعلیٰ کام کررہے ہیں، سوائے جام کمال کے ۔
ایک اور طعنہ عثمان بزدار کو یہ ملتا ہے کہ ان کو بنی بنائی کابینہ ملی ہے جس میں وہ ردوبدل نہیں کرسکتے یا یہ کہ بیوروکریسی کے اہم مناصب پرکسی کو لگاسکتے ہیں اور نہ ہٹاسکتے ہیں حالانکہ یہ معاملہ بھی الٹ ہے ۔
شہباز گل جیسے بندے کے بارے میں ان کو معلوم ہوا کہ وہ ان کے خلاف سازش کررہے ہیں تو فورا ان کی چھٹی کرادی۔ اسی طرح ابھی تک وہ نصف درجن آئی جیزاور چیف سیکرٹریز کو تبدیل کرچکے۔ آخری چیف سیکرٹری بہت طاقتور سمجھے جاتے تھے لیکن بزدار صاحب نے انہیں بھی ضد کرکے عمران خان سے تبدیل کروایا ۔ اس کے برعکس محمود خان اپنی مرضی سے کسی وزیر کو لگانے یا ہٹانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ابھی حال ہی میں ان کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر کی چھٹی ان کی مرضی کے بغیر الزام لگا کر کرادی گئی ۔
وہاں جتنے چیف سیکرٹری اور آئی جیز تبدیل ہوئے ہیں، کسی ایک میں بھی ان سے نہیں پوچھا گیا ۔ سب تقرریاں اور معزولیاں مرکز سے ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ بلوچستان کا بھی ہے لیکن پروپیگنڈا صرف بزدار کے خلاف ہورہا ہے۔
بزدار صاحب کے خلاف یہ پروپیگنڈا بھی شدت کے ساتھ کیا گیا کہ وہ میڈیا سے گھبراتے ہیں اور یہ کہ ٹی وی انٹرویوز نہیں دے سکتے حالانکہ وہ ماضی میں ٹی وی انٹرویوز دے چکے ہیں اور ابھی کل ہی تیز طرار اور سمجھدار اینکر منیب فاروق کو انٹرویو دیا۔ اس کے برعکس خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے آج تک کسی قومی ٹی وی چینل کو انٹرویو نہیں دیا لیکن ان کا نام کوئی نہیں لے رہا ۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے انٹرویوز دئیے ہیں لیکن وہ بھی صرف من پسند اینکرز کو شاید پہلے سے معاملات طے کرکے انٹرویو دیتے ہیں۔ بزدار صاحب کئی بار پریس ٹاک بھی کرچکے ہیں ، جہاں وہ مختصر مگر اچھے جواب دیتے ہیں جبکہ منیب فاروق کے انٹرویومیں بھی انہوں نے اچھے جواب دیئے لیکن محمود خان کبھی بھی منیب فاروق جیسے اینکر کے سامنے بیٹھنے کی ہمت نہیں کریں گے۔
کارکردگی کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ اعتراض عثمان بزدار پر ہورہا ہے حالانکہ آپ کسی بھی معیار پر پرکھیں تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی ، بزدار صاحب سے کئی گنا زیادہ خراب ہے۔بزدار صاحب نے نیا کچھ نہیں کیا ہوگا لیکن پہلے سے بنی بنائی چیزوں کو بھی تو تباہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس خیبرپختونخوا میں پہلے سے قائم اداروں کو تباہ کیا گیا۔
ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔بی آر ٹی پر اگر پرویز خٹک نے چھ ماہ لگانےتھے تو محمود خان نے ڈیڑھ سال لگادیا حالانکہ پرویز خٹک کے دور میں بنیادی اسٹرکچربن چکا تھا۔ یونیورسٹیاں تباہی سے دوچار ہیں۔ امن و امان کی حالت ابتر ہے۔ پولیس میں سیاسی اور غیرسیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی ہے ۔ ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح پنجاب سے بہت کم ہے ۔جبکہ بلوچستان تو ہر حوالے سے تباہ حال ہے لیکن سیاست اور میڈیا میں تذکرہ صرف پنجاب اور بزدار صاحب کا ہوتا ہے ۔اسی طرح بزدار صاحب کی بعض خوبیوں کو بھی میڈیا نے خامی بنا دیا ہے۔ مثلا ان میں تکبر نہیں اور وہ عجز و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ الٹاان کی اس خوبی کو تو میڈیا میں خامی بنا دیا گیا ہے لیکن باقی دو وزرائے اعلیٰ کے ہاں تکبر نظرآتا ہے ۔ ایک میں قول کا اور دوسرے میں قول کا نہیں لیکن عمل کا تکبر آگیاہے۔
تاہم اصل زیادتی بزدار صاحب کے ساتھ اب ہونے جارہی ہے لیکن میڈیا یااہل سیاست کے ہاتھوں نہیں ۔مذکورہ سب خامیوں کے باوجودمحمود خان کی وزارت اعلیٰ کو کوئی خطرہ ہے اور نہ جام کمال کی وزارت اعلیٰ کو۔ خطرہ ہے تو عثمان بزدار کو ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ان کا انجام بھی جہانگیر ترین جیسا ہونے والا ہے لیکن کرنے والے مختلف ہوں گے ۔ جہانگیر ترین کے ساتھ جوکچھ ہوا ، وہ خود خان صاحب نے کیا لیکن بزدار صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوگا، وہ خان صاحب نہیں کچھ اور لوگ کریں گے ۔ دیکھتے ہیں یہاں بھی بزدار صاحب کا جادو چلتا ہے یا نیب کے جادوگروں کاجادو ان کے جادو کو شکست دے دیتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔