Time 05 ستمبر ، 2020
پاکستان

ایک بے وقت اور خطرناک بحث

جب سے سونامی سرکار اقتدار میں لائی گئی ہے ، تب سے وقفے وقفے کے ساتھ صدارتی نظام کی صدائیں کہیں نہ کہیں سے بلند ہونے کا عمل جاری ہے ۔ وہ اینکرز اور لکھاری بھی،جو مخصوص ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لئے معروف ہیں، وقتا فوقتا اس کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ایک نامعلوم سیاسی جماعت (ہم عوام پارٹی پاکستان) کے طاہر عزیز خان اور پھر ایک انجینئرنگ گریجویٹ صداقت علی نے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کردیں جن میں ملک کے اندر صدارتی نظام رائج کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 184کے کلاز 3کے تحت وزیراعظم کو عوامی ریفرنڈم کا حکم دینے کی استدعا کی گئی ہے ۔

معاملے کے مشکوک اور پراسرار ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صاحب نے 27 اگست کو پٹیشن دائر کی اور دوسرے نے 28 اگست کو جبکہ حیرت انگیز طور پر دونوں کے درخواستوں کے دلائل بھی ایک جیسے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنی پٹیشن میں یہ دلیل دی ہے کہ پاکستان کی آبادی 212 ملین ہے جس کی 64 فی صد 30سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوگا جبکہ دوسرے صاحب نے بھی یہی دلائل دئیے ہیں ۔

اسی طرح ایک صاحب نے پاکستان کے قرضوں میں بے تحاشہ اضافے، جی ڈی پی میں کمی اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کو تشویشناک قرار دے کر اسے انڈیا، بھوٹان، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک سےبدتر قرار دیا ہے اور دوسرے صاحب کا بھی من و عن یہی استدلال ہے۔

اسی طرح دونوں صاحبان نے ملک کی موجودہ ابتر حالت کو پارلیمانی سسٹم کے فیل ہونے کی علامت قرار دیا ہے اور دونوں نے صدارتی نظام کو شریعت کے قریب تر قرار دے کر ایک ہی قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے تاہم صداقت علی نے فرانس اور طاہر عزیز نے ترکی کے صدارتی نظام کو پاکستان جیسے ملک کے لئے اولین ترجیح قرار دیا ہے۔

صداقت علی نے تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا خاتمہ کرکے صرف سینیٹ کو کافی قرار دیا ہے البتہ طاہر عزیز اسمبلیوں کے خاتمے کی بجائے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدارتی نظام کو رائج کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ چنانچہ ان دونوں حضرات کے اس اقدام سے ایک بار پھر میڈیا میں صدارتی نظام کی بحث گرم ہوگئی ہے۔

میں ذاتی طور پر صدارتی نظام کا مخالف نہیں اور اگر 1973 کی آئین کی تشکیل کے وقت رائے دینے کی پوزیشن میں ہوتا تو شاید امریکہ جیسے صدارتی نظام کے حق میں رائے دیتا ۔کیونکہ امریکی نظام کی یہ خوبی ہے کہ وہاں ماہرین وزیر بن جاتے ہیں اور پارلیمنٹ ان پر چیک رکھتی ہے ۔ مضبوط چیک اینڈ بیلنس ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی صدارتی نظام کی یہ خوبی بھی ہے کہ وہاں ریاستیں مکمل خود مختار ہیں اور صدر ان میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔

وسائل پر کنٹرول تو اپنی جگہ ہر ریاست ٹیکس اور دیگر معاملات بھی مکمل طور پراپنے کنٹرول میں رکھتی ہے ۔ پھر مقامی حکومتوں کے نظام کی وجہ سے ہر شہر کا مئیر بھی مکمل خودمختار ہے جس پر صدر یا ریاست کا گورنر اثرانداز نہیں ہوسکتا لیکن میں جس قدر ذاتی طور پر صدارتی نظام کا حامی ہوں، اس قدر اس نازک وقت پر پاکستان کے اندر اس بحث کو چھیڑنا قومی وجود کے لئے زہرقاتل سمجھتا ہوں۔

پہلی گزارش تو یہ ہے کہ 73کے آئین اور پارلیمانی نظام پر اس وقت کی تمام سیاسی قیادت کا متفق ہونا ایک معجزہ تھا۔ اس دور کی سیاسی قیادت بڑی میچور تھی لیکن اس وقت تو ملک بقول سپریم کورٹ کے سیاسی بونوں کے سپرد ہے جو ایف اے ٹی ایف کے چند بلوں پر اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکتی تو پارلیمانی نظام کو تبدیل کرکے صدارتی نظام پر کیسے تمام سیاسی عناصر کو متفق کرسکے گی؟

دوسری گزارش یہ کہ اگر امریکہ ، چین ، روس اور فرانس میں صدارتی نظام کے ساتھ ترقی ہوئی ہے تو انڈیا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش نے پارلیمانی نظام کے ساتھ ترقی کر لی۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نظام سے زیادہ افراد ، ان کے رویے اور اداروں کا رول اہم ہوتاہے ۔ہمارے پڑوس کے افغانستان میں امریکی صدارتی نظام کو کم وبیش من و عن کاپی کرلیا گیا ہے لیکن وہاں تو یہ نظام امریکہ جیسے نتائج نہیں دے رہا بلکہ ہمارے پارلیمانی نظام سے بھی زیادہ ناکام ثابت ہورہا ہے ۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ پاکستان میں ہم مکمل صدارتی نظام کے تجربے بھی کرچکے ہیں اور نیم صدارتی نظام کے بھی اور دونوں تجربات نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایوب اور یحییٰ کے ادوار مکمل صدارتی نظام کے نمونے تھے جبکہ ضیا الحق اور غلام اسحاق یا فاروق لغاری کی صدارت کا ابتدائی دور نیم صدارتی نظام کے نمونے تھے ۔ پہلے دو کا صدارتی نظام ملک کو دولخت کرگیا جبکہ نیم صدارتی نظام سیاسی عدم استحکام کا شاہکار نمونہ ثابت ہوا اور 1988سے لے کر 1996 تک کے مختصر عرصے میں چار منتخب حکومتوں کے خاتمے کا موجب بنا۔ جنرل مشرف کا دور بھی نیم صدارتی تھا اور اس دور میں بھی ملک کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں کے نسبت کئی گنا زیادہ نقصان پہنچا۔

چوتھی گزارش یہ ہے کہ صدارتی نظام کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کے تحت تمام اختیارات مرکز میں ایک فرد واحد کے ہاتھ میں منتقل ہوجاتے ہیں اور دوسرا وہ کہ جس میں صوبوں یا ریاستوں کو مکمل خودمختاری حاصل ہوتی ہےجیسا کہ امریکہ میں ہے ۔

وہ ممالک ،جہاں ایک نسل کے لوگ رہتے ہیں ، کے اندر تو مرکز میں اختیارات مرتکز ہونے سے مسائل کھڑے نہیں ہوتے لیکن پاکستان جیسے کثیرالنسل ملک میں ایسا کرنا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔جہاں تک امریکہ جیسے صدارتی نظام کا تعلق ہے تو کیا ہمارے مقتدر حلقے، صوبوں کو وہ اختیارات دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں جو امریکہ میں ریاستوں کو حاصل ہیں؟

جس ملک میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والی خودمختاری ان سے ہضم نہیں ہوتی، وہاں وہ کیوں کر صوبوں کو خودمختاری دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں؟ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ انتظامی بنیادوں پر زیادہ صوبے بنائے جائیں ۔ لیکن اس معاملے میں بھی میری رائے یہ ہے کہ پولرائزیشن کے اس دور میں نئے صوبوں کی بحث کو چھیڑنا بھی درست نہ ہو گا۔

غرض صدارتی نظام مناسب ہے یا نامناسب ، اس کے بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ اس پنڈورا باکس کو کھولنے کیلئے اس وقت سے زیادہ نامناسب وقت کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

اچھا کام بھی، اچھی نیت کے ساتھ اگر غلط وقت پر یا غلط طریقے سے کیا جائے تو اس کے نتائج بھیانک نکل آتے ہیں۔ یہاں تو اس کام کے اچھا ہونے پر اتفاق ہے، نیت اچھی نظر آتی ہے اور نہ وقت مناسب ہے۔

مزید خبریں :