ویزہ اسکینڈل: 14ہزار غیر ملکیوں کے ویزوں پر تحقیقات جاری

— فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان میں ایک بڑا ویزہ اسکینڈل سامنے آیا ہے اور 14ہزار غیر ملکیوں کو جاری ویزوں پر تحقیقات جاری ہے جب کہ متعدد اعلیٰ افسران کو عہدوں سے ہٹادیا گیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق، حکام نے ایک بڑے ویزہ اسکینڈل کا انکشاف کیا ہے جس میں 14ہزار سے زائد غیر ملکی شہریوں نے مبینہ طور پر گزشتہ دو سال کے دوران جعلی، تبدیل شدہ یا نامکمل تفصیلات جمع کرکے سفری دستاویزات حاصل کیے ہیں۔

جیو نیوز کے پاس وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے ڈی جی، امیگریشن اینڈ پاسپورٹس کے درمیان ہونے والے روابط کی معلومات ہیں جن میں انکشاف ہوا ہے کہ دو درجن سے زائد سرکاری افسران نے ملک کی ویزہ پالیسی کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات سے دوچار کیا۔ پاکستان میں بزنس ویزہ ایک ریکٹ اور مافیا بن چکا ہے  جب کہ ایسےکیسزکی شناخت بھی ہوئی ہے جس میں ویزہ یا ویزہ توسیع بغیر کسی ویری فکیشن کے دی گئی۔

غیر ملکی درخواست دہندگان کی بلیک لسٹ تفصیلات بھی چیک نہیں کی گئیں۔ 

متعلقہ سیکشنز نے ویزہ توسیع کے حوالے سے کسی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کیا بلکہ غیر ملکی شہریوں کو اس ضمن میں سہولتیں فراہم کی گئیں۔ 105 شہریوں کو ویزہ توسیع دی گئی اور ایسا 25 جون، 2020 کے وزارت داخلہ کے جعلی خط پر کیا گیا۔

اسی طرح کئی کمپنیوں اور ان کے سی ای اوز کے جعلی لیٹر ہیڈز کو جعلی ویزہ اور ویزہ توسیع کے لیے استعمال کیا گیا۔ مجموعی طورپر لاہور سے گزشتہ ایک سال کے دوران 13 ہزار 671 ویزہ میں توسیع دی گئی۔

مجموعی طور پر 6 ہزار درخواستوں کی جانچ پڑتال سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویزہ توسیع دیتے وقت ویزہ پالیسی اور قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیا گیا۔

سرکاری خط میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویزہ توسیع کی ہدایات ریکارڈ میں شامل نہیں تھیں جب کہ ویزہ توسیع کے لیے لکھے گئے خطوط کا فارمیٹ، متن اور گرامر بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ مستند نہیں تھے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق، دی ایچ اینڈ ایچ کمپنی نے ویزہ اجرا کے لیے جعلی دستاویزات کا استعمال کیا۔

غیر ملکی شہریوں کے ویزہ اور ویزہ توسیع کے حوالے سے ایف آئی اے تحقیقات کررہا ہے۔ متعدد ایجنٹوں نے 29 جعلی دستاویزات ایم ایس سیلو انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ اور ایم ایس فل فورس ڈائنامکس پرائیویٹ لمیٹڈ کے لیے جمع کیے۔

جیو نیوز کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہت سی دیگر کمپنیاں اور ایجنٹس کی چھان بین کی جارہی ہے اور کئی کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق، زیادہ تر ویزہ جن کمپنیوں کی سفارش پر جاری کیے گئے ان میں ایم ایس ویڈو الیکٹرک پرائیویٹ لمیٹڈ، پاکستان سینو ہائبرو کارپوریشن لمیٹڈ، پاک ہواپو الیکٹرک پاور، فرینڈز ٹریڈنگ کارپوریشن، یو اینڈ ڈبلیو ٹریڈنگ کمپنی، ایم ایس لونگ چینک چائنیز گیسٹ ہائوس، لونگ یوان کنسلٹنسی سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ، گوادر بزنس مینجمنٹ اینڈ کنسلٹنسی پرائیویٹ لمیٹڈ،، کنسلٹنگ اینڈ سروسز کو لمیٹڈ، جی اسٹینڈرڈ امپیکس پرائیویٹ لمیٹڈ،، شائن اینڈ ٹریڈنگ سروسز اور ایچ اینڈ ایچ کنسٹرکشن کمپنی شامل ہیں۔

اب اس حوالے سے تین آزاد انکوائری کمیٹیاں اس بات کی تحقیقات کررہی ہیں کہ کیا واقعی ان کمپنیوں نے غیر ملکیوں کو ویزہ جاری کرنے کے لیے خطوط لکھے تھے۔ یہ تحقیقات 12 ہفتے قبل اس وقت شروع کی گئی تھیں جب غیر ملکی شہریوں کی جانب سے متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں۔

حکام نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ دو درجن سے زائد افسران بدعنوانی میں ملوث تھے، جس میں سب سے معروف ڈائریکٹر پاسپورٹس لاہور، فیاض حسین تھے۔ ان کے نوکری سے برخاست کیے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک سیکشن افسر مستعفی ہوچکے ہیں۔

تین سیکشن افسران کے تبادلے کے گئے ہیں، ایک ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹس اینڈ امیگریشن، دو ایڈیشنل سیکرٹریز ، دو ڈپٹی سیکرٹریز کو عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر اداروں کے عہدیدار بھی اس میں ملوث تھے۔ جب کہ دو خواتین افسران کو بھی ٹرانسفر یا معطل کیا جاچکا ہے۔ جب کہ اس حوالے سے مختلف فورمز پر تین انکوائریز کی جارہی ہیں۔

سینئر افسر خالد رسول دو انکوائریاں کررہے ہیں۔ جب کہ ڈپٹی سیکرٹری طارق علیم گل غیر ملکیوں کو بزنس ویزہ کی تحقیقات کررہے ہیں۔ یہ افسران دیگر ممالک کے شہریوں کو جاری کئے گئے جعلی ویزہ کی بھی انکوائری کررہے ہیں۔

ان ممالک میں سوڈان، افغانستان اور لائبیریاں کے شہری شامل ہیں۔

اسکینڈل میں ملوث مبینہ طور پر جن افسران کے خلاف انکوائری کی جارہی ہے ان میں سابقہ ڈی جیز پاسپورٹس اینڈ امیگریشن عشرت علی اور شہزاد خان بنگش، وزارت داخلہ کے اسٹاف افسر رفیق کھوکھر، ایڈیشنل سیکرٹریز طارق سردار اور عزیز عقیلی، ڈپٹی سیکرٹری مظفر برکی، سیکشن افسران اقرا انعم اور میاں عزیر بن رافع شامل ہیں۔

اس نمائندے نے متعدد مرتبہ بذریعہ ای میل اور ٹیکسٹ پیغامات کے تمام سینئر افسران سے رابطے کی کوششیں کیں اور ان سے بذریعہ فون رابطہ بھی کیا۔ جس پر انہوں نے نا ہی اس بات کی تردید کی اور نا ہی کسی سوال کا جواب دیا۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شہری جو یہاں کام کررہے ہیں انہیں ایک سال کا ورک ویزہ دینا حکومت کے منظور شدہ / اسپانسر منصوبے جو کہ سرکاری اور نجی شعبوں کے کلیئرنس سرٹیفکیٹ جو کہ پبلک سیکورٹی وزارت سے جاری کیے جاتے ہیں، لازمی ہیں۔

یہ خبر روزنامہ جنگ میں مورخہ 7 ستمبر کو شائع ہوئی،

مزید خبریں :