09 ستمبر ، 2020
پاکستان تحریک انصاف کو دو حوالوں سے باقی جماعتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ ایک تو اسے، ایسا رہنما ملا ہوا ہے جو سلیبرٹی اور سیماب صفت ہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ وہ خالص میکاولین فلسفے پر عمل پیرا ہیں اور اس بات کو رتی بھر ذہن میں نہیں لاتے کہ کل کیا کہہ رہے تھے اور آج کیا کہہ رہے ہیں۔
وہ اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں کہ وہ بات کریں اور کام کریں، جس سے لوگ واہ واہ کرنے لگ جائیں۔ بےشک وہ کام یا وہ بات ناممکن یا ملک کے مفاد کے منافی (اسامہ بن لادن والی بات)ہو یا ان کے ماضی کے دعوئوں کے یکسر منافی ہو لیکن اگر اس پر لوگوں کی طرف سے شاباش ملتی ہے تو وہ اس کام یا بات کو کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
دوسری سبقت پی ٹی آئی کو پروپیگنڈے کے میدان میں حاصل ہے۔ یہ پارٹی چونکہ میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے بنائی اور اقتدار میں آئی ہے، اس لئے اس کے قائد سے لے کر ورکر تک ہر بندہ پروپیگنڈے کا ماہر ہے۔ وہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس ایک وزارتِ خزانہ تو نہیں، لیکن وزیراعظم سے لے کر معاونین خصوصی تک ہر بندہ وزیر اطلاعات ہے۔ پارٹی اور صوبائی حکومتوں کے ترجمانوں کو ساتھ ملا لیا جائے تو اس حکومت میں وزرائے اطلاعات یا گوئبلز کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے۔ یہ حکومت میڈیا پر برہم بھی ہے لیکن میڈیا کو جس طرح اس نے قابو کررکھا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہاکی یا فٹ بال کے کیس کو مثال بنایا جائے تو ہر حکومت میں صحافت اور سیاست کا میچ حکومتی ہاف میں گرم رہتا ہے لیکن پی ٹی آئی اقتدار میں ہوکر بھی گیم کو اپوزیشن کے ہاف میں گرم رکھنے میں کامیاب ہے۔ وہ ہر وقت مصلحتوں کی شکار اپوزیشن پر حملہ آور رہتی ہے اور اپوزیشن اپنی صفائیاں دیتی پھرتی ہے۔
یوں پی ٹی آئی کی بیڈ گورننس اور ہر طرف جاری خاموش تباہی کا سیاست میں مناسب تذکرہ ہوتا ہے اور نہ صحافت میں۔ تازہ ترین مثال کابینہ کی طرف سے غیرملکی شہریت کے حامل لوگوں کو الیکشن لڑنے کا حق دینے کا فیصلہ ہے۔ چین یا انڈیا میں تو ایسا ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن غیرملکی افواج کی موجودگی میں افغانستان جیسے ملک کا بھی جو آئین بنا ہے، اس کی رو سے غیرملکی شہریت رکھنے والا رکن پارلیمنٹ یا وزیر مشیر نہیں بن سکتا۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے سرپرستوں کے شوروغوغا سے ہی ایک وزیراعظم ایک دوست ملک کا اقامہ رکھنے کی وجہ سے نااہل ہوئے ہیں لیکن اب خان صاحب کی اپنی کابینہ امریکہ اور برطانیہ کی شہریت کے حامل لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
ضد ملاحظہ کیجئے کہ اس دوران کابینہ نے غیرملکی شہریت رکھنے والوںکو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا لیکن اپوزیشن خاموش ہے کیونکہ نون لیگ کو نواز شریف کی واپسی کے قضیے میں الجھا دیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اس کی دکھتی رگ سندھ میں۔ وزیراعظم اعلان کررہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل چین سے وابستہ ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں کو امریکہ اور برطانیہ کے شہریوں سے یا پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندوں سے بھرا جارہا ہے لیکن اپوزیشن میں اتنی سکت نہیں کہ ملکی سلامتی اور مستقبل کے ساتھ اس کھلواڑ کو ایشو بنا سکے۔
سچ تو یہ ہے کہ موجودہ اپوزیشن کو اپوزیشن کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے اپنی اپنی دکھتی رگ دکھا دی ہے اور اب جب وہ ہلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی ان دکھتی رگوں کو چھیڑا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی دکھتی رگ قیادت کے کیسز اور سندھ حکومت ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی دکھتی رگ گڈکاپ اور بیڈ کاپ یا ڈبل گیم کی سیاست اور شریف خاندان کے کیسز ہیں۔ دونوں کی قیادت اس انتظار میں ہے کہ عمران خان کو ملنے والا این آر او ختم ہو جائے گا اور نتیجتاً نظر کرم ان پر پڑجائے گی لیکن یہ نہیں سوچتے کہ این آر او دینے والوں کو عمران خان سے تکلیف کیا ہے جو ان سے لے کر ان کو این آر او عنایت کردیں۔ پیپلز پارٹی نے تو تابعداری انتخابات سے پہلے شروع کی تھی۔
انتخابات کے بعد بھی اگر پیپلز پارٹی تابعداری نہ کرتی تو موجودہ حکومتی بساط کبھی بھی اس شکل میں نہیں بچھ سکتی تھی لیکن پھر بھی جب قیادت زیر عتاب آئی تو نمائشی اپوزیشن شروع کردی لیکن یہ نمائشی اپوزیشن بھی این آر او دینے کی صلاحیت رکھنے والی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہوتی ہے اور بنیادی پیغام یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ عمران خان کو ملنے والا این آر او ختم کرکے ہمیں دے دیں تو ہم ان سے اچھا ڈیلیور کرسکتے ہیں تاہم وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ گاہے گاہے کی اپوزیشن بھی ان کو این آر او کے لئے ڈسکوالیفائی کرلیتی ہے۔ نون لیگ کا معاملہ تو پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے راستے الگ الگ ہیں۔
اصل مقابلہ دونوں کی اولاد میں ہے لیکن جہاں تک بھائیوں کا تعلق ہے یہ باقاعدہ اور سوچی سمجھی تقسیم ہے جس کے تحت گڈکاپ اور بیڈ کاپ کھیلا جارہا ہے۔ قبل از انتخابات اور بعدازانتخابات نون لیگ کی سیاست کا لب لباب بھی یہی ہے کہ وہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگر عمران خان کو ملنے والا این آر او ختم کرکے ان کو دیا جائے تو وہ ان سے بہتر ڈیلیور کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی جب ان کو مار پڑتی ہے تو مریم نواز اور نواز شریف کا انقلابی بیانیہ مخصوص وقت کیلئے روبہ عمل لایا جاتا ہے تاہم اس جزوقتی اپوزیشن کی وجہ سے این آر او ملنے کے امکانات معدوم اور عمران خان کو ملنے والے این آر او کی گرہیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اب جب شہباز شریف مفاہمت کی بات آگے بڑھاتے ہیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور جب مریم نواز انقلابی بیانیہ کے ساتھ میدان میں آتی ہیں تو لوگ اس پر یہ سوچ کر یقین نہیں کرتے کہ کوئی رعایت ملنے کے بعد پھر غائب ہوجائیں گی۔
یوں اس وقت یہ ملک اللہ کے سہارے چل رہا ہے۔ ہم تاریخ کے عجیب دور سے گزر رہے ہیں کہ اس ملک میں حکومت ہے اور نہ اپوزیشن۔ یا کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومتی رویہ حکومت والا نہیں بلکہ اپوزیشن والا ہے جبکہ اپوزیشن کی کوئی ادا اپوزیشن والی نہیں۔
حکومت کو ملک اور عوام کے اصل ایشوز سے دلچسپی ہے اور نہ اپوزیشن کو۔ حکومت کی صرف میڈیا اور نام نہاد اپوزیشن پر نظر ہے جبکہ اپوزیشن کی صرف اپنی قیادت کے مسائل پر۔ ہم پہلی مرتبہ ایک ایسے عجیب دور سے گزر رہے ہیں کہ عوام حکومت کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور اپنی ترجمانی کے لئے اپوزیشن کو بھی۔ یا اللہ اس ملک پر رحم فرما۔