بلاگ
Time 24 ستمبر ، 2020

گیند ابھی ہَوا میں ہے!

— آئی این پی فوٹو

اے پی سی کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک گرما گرمی کا ماحول دیکھا گیا۔ البتہ میاں صاحب کی دھواں دھار تقریر کو سرہانے والے تجزیہ کاروں نے صبح تک اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ خطاب دراصل خان صاحب کے لیے مثبت ثابت ہوا ہے لیکن ایسا کیوں ہوا؟

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے خان صاحب پر اپنے خلاف کسی بھی قسم کی میڈیا کی آواز کو دبانے اور پابندیاں لگانے کی تنقید ہوتی تھی اور اسی وجہ سے سب کا یہی خیال تھا کہ میاں صاحب کی تقریر کسی چینل پر دکھانے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی لیکن تمام چینلز پر اپنے سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر کی تقریر دکھا کر خان صاحب نے سب کا منہ بند کر دیا بلکہ اس پر ناراض میڈیا سے داد بھی ملی۔

کوئی بھی بات کہیں، سچ تو یہ ہے کہ اس وقت سول ملٹری تعلقات اپنے عروج پر ہیں۔ اپنے دو سالہ دور حکومت میں عمران خان نے کئی ٹھوکریں کھائیں لیکن وہ جہاں لڑکھڑاتے وہی یہ تعلقات انہیں سہارا دے کر واپس کھڑا کر دیتے۔ پھر چاہے وہ ایف اے ٹی ایف کا بل پاس کرنا ہو یا صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہو۔ میاں صاحب کی تقریر تو یقیناً بولڈ تھی لیکن یہ ایک کھلاڑی کو بولڈ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

ماضی میں کئی اے پی سیز بھی ہوئیں اور اپوزیشن گٹھ جوڑ بھی دیکھے گئے لیکن ایسے مضبوط نظام کو ہلانے کے لیے صرف کھوکھلی اے پی سیز ہی کافی نہیں۔ اگر حدف حکومت گرانا ہے تو اس کے لیے حقیقی اپوزیشن کی ضرورت ہے جس کے لیے ش لیگ ابھی تیار نہیں اور پی پی پی کو اقتدار کی دیمک نے ایک کھوکھلی اپوزیشن جماعت بنا دیا ہے۔ 

اپوزیشن اتحادیوں میں عدم اعتماد جو اس وقت موجود ہے وہ اس ایک اے پی سی یا میاں صاحب کے خطاب کی بدولت کم ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن اور آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع چیخ چیخ کر کمزور اتحاد کا ثبوت دیتے ہیں-۔

دسمبر اور جنوری تک کا عرصہ بے شک بڑا اہم ہے۔ اس حساب سے بھی کہ “آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ” کے اعلان کے بعد اب اس نئے اتحاد کا لائحہ عمل کیا ہوگا اور اس حساب سے بھی کہ خان صاحب کی اپنے ہی طے کردہ 6 مہینے کا پرفارمنس حدف بھی دسمبر میں اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اپوزیشن کا 26 نکاتی منصوبہ پلین تو اصل میں اے پی سی کی ایک تحریری دستاویز ہے۔ اصل امتحان تو ان کو عملی جامع پہنانا ہے۔ 

دوسری جانب حکومتی پرفارمنس کے اعداوشمار میں کچھ بہتری ضرور واضح ہے۔ کنسٹرکشن پیکج کے اثرات اور کرنٹ اکاؤنٹ کے اعدادوشمار نے معیشت کو کچھ حد تک سہارا ضرور دیا ہے۔ اگر اسی طرح معیشت حکومتی توجہ کا مرکز رہی تو یہ 26 نکاتی موومنٹ بھی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔

جن سیاسی تجزیہ نگاروں کو یہ لگا کہ میاں صاحب نے باؤنڈری سے نکل کر چھکا مارا ہے وہ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ خان صاحب کے کرکٹ کے دنوں کے ساتھی بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ بے حد لکی (lucky) کھلاڑی تھے۔ میاں صاحب کی کھیلی ہوئی گیند ابھی ہوا میں ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ چھکا ہوتا ہے یا باؤنڈری پہ کیچ آؤٹ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔