12 اکتوبر ، 2020
ذوالفقار علی بھٹو نے 7 جنوری1977ء کو قومی اسمبلی میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ بتایا گیا کہ مارچ1977ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔
اپوزیشن جماعتیں انتشار کا شکار تھیں۔ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحاد موجود تھا جس میں سردار شیر باز مزاری کی نوزائیدہ جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور جماعت اسلامی تو شامل تھیں البتہ ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی تحریک استقلال اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان یو ڈی ایف کا حصہ نہ تھیں۔
انتخابات کا اعلان ہوتے ہی پروفیسر غفور احمد اور سردار میرشیر باز مزاری ایبٹ آباد پہنچے اور ایئر مارشل اصغر خان کو یوڈی ایف میں شمولیت کی دعوت دی۔ اصغر خان بہت سرد مہری سے پیش آئے اور کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ دونوں رہنمائوں نے سمجھایا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا بھٹو کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد اصغر خان دیگر سیاسی رہنمائوں کیساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوگئے۔
جب سیاسی بیٹھک ہوئی تو طے پایا کہ یوڈی پی کے بجائے نیا سیاسی اتحاد بنایا جائے۔ ملاقات کے دوران نشستوں کی تقسیم سے متعلق مطالبات کے علاوہ جے یوپی نے یہ شرط بھی رکھی کہ نئے سیاسی اتحاد میں سیکریٹری جنرل ان کا ہوگا۔ جماعت اسلامی ہر قیمت پر بھٹو کا راستہ روکنا چاہتی تھی اس لئے یہ کڑوی گولی نگل لی گئی۔
اصغر خان اس دور کے مقبول ترین سیاسی رہنما تھے اور غالب گمان یہی تھا کہ نئے سیاسی اتحاد کا سربراہ انہیں بنایا جائے گا۔ بھٹو کے وزیر اطلاعات کوثر نیازی اپنی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم بھٹو کی ایک ہی خواہش تھی کہ مخالف جماعتوں کے اتحاد کی جو بھی صورت بنے، اصغر خان کوئی نمایاں عہدہ حاصل نہ کر سکیں۔
خصوصاً انہیں پی این اے کی قیادت نہ سونپ دی جائے۔ وزیراعظم کے نزدیک مغربی تعلیم یافتہ اور روشن خیال اصغر خان متبادل قیادت کا سیاسی تصور پیدا کر سکتے تھے اور عوام کےلئے اپنے اندر خاصی کشش رکھتے تھے۔ کوثر نیازی کے مطابق حکومت نے تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو متحرک کردیا،جے یوپی اور جماعت اسلامی میں اپنے روابط کو استعمال کیا گیا، صحافیوں کو خریدا گیا تاکہ اصغر خان کے بجائے جے یو آئی کے سربراہ مولانا مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ بنوایا جا سکے۔
حکومت اپنے خلاف تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد پی این اے کا سربراہ بھی اپنے پسندیدہ شخص کو بنوانے میں کامیاب رہی اور مولانا مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ بنائے جانے پر حکومتی حلقوں میں باقاعدہ جشن منایا گیا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ مولانا مفتی محمود کی شخصیت میں عوام کے لئے کوئی کشش نہیں، اسلئے یہ اتحاد مقبولیت حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
لگ بھگ 43برس بعد حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک نیا سیاسی اتحاد بنایا تو اس بار قیادت جے یو آئی کے مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان کے سپرد کی گئی۔ اس بار صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ جماعت اسلامی اس سیاسی اتحاد میں شامل نہیں،شیر باز مزاری اور اصغر خان کی سیاسی جماعتیں باقی نہیں رہیں، نوابزادہ نصراللہ خان نہ رہے، مولانا شاہ احمد نورانی رُخصت ہوگئے، پروفیسر غفور جیسے شگفتہ مزاج رزق خاک ہوگئے، ولی خان جیسے قدآور رہنما چلے گئے۔
ویسے اگر حکومت کے اختیار میں ہوتا تو مولانا فضل الرحمان کے حق میں لابنگ کرنے کے بجائے یہ کوشش کی جاتی کہ وہ کسی صورت اس سیاسی اتحاد کے سربراہ نہ بننے پائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان ہی اس نوعیت کی تحریک چلانے کی مہارت رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے۔
نہ تو عمران خان خان بھٹو ہیں اور نہ ہی فضل الرحمان کو مولانا مفتی محمود سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس بار ہر حوالے سے صورتحال مختلف ہے۔ بالعموم تحریکیں جن کے دم قدم سے چلتی ہیں، وہ جس طرح ایک پیج پر ہیں اس طرح ماضی میں کبھی نہیں رہے۔ چنانچہ اپوزیشن کیلئے مقابلہ بہت سخت ہے۔ ہاں البتہ پی این اے اور پی ڈی ایم کے تناظر میں ایک بات مشترک ضرور ہے اور وہ ہے مذہب کارڈ اور مولانا فضل الرحمان مذہب کارڈ استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
وفاقی دارالحکومت میں انواع و اقسام کی افواہیں زیر گردش ہیں اور کیوں نہ ہوں، وطن عزیز کی تاریخ ہی اس قدر بھیانک ہے کہ چھانچھ پھونک پھونک کر پینے پر تعجب نہیں ہوتا۔ اکتوبر کا مہینہ تو ویسے ہی بہت سخت ثابت ہوا ہے۔ 7اکتوبر 1958ء کو افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل ایوب خان کو کمانڈر انچیف کی طرف سے مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے کا حکم ملا اور چند روز بعد یہ حکم صادر کرنے والے کمانڈر انچیف میجر جنرل سکندر مرزا کو گھر بھیج کر انہوں نے خود حکومت سنبھال لی۔
12اکتوبر 1999ء کو منتخب وزیراعظم نے آئینی اختیارات کے تحت آرمی چیف کو برطرف کرکے نیا سپہ سالار تعینات کرنے کا اعلان کیا تو بغاوت ہوگئی اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
16 اکتوبر 1951ء کو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا اور جب یہ واردات ہوئی تو سپہ سالار جنرل ایوب خان لندن کے شفا خانے میں پیچش جیسے معمولی مرض کا علاج کروا رہے تھے (انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھی ہے یہ بات)۔ تو کیا تاریخ خود کو دہرانے جا رہی ہے؟ میرا خیال ہے نہیں، زمانہ بدل گیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔