حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر

فوٹو: فائل 

گوجرانوالہ کا جلسہ کامیاب ہوگا یا نہیں؟ اسٹیڈیم بھی بھرنا مشکل ہوگا یا پورا شہر جلسہ گاہ کا منظر پیش کرے گا؟ جو بھی ہو گا، وہ ہو گا بہت، یوں کہ زیر نظر کالم کی اشاعت پر اِن سوالوں کا جواب مکمل تفصیلات کے ساتھ میڈیا کی بھرپور کوریج کی شکل میں مل جائے گا۔

پھر کئی روز تک کے فالو اپ میں اِس پر تجزیوں کی بھرمار ہوگی۔ ناچیز کی فکرِ عوام و مملکت یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جو ایک پیج پر آچکے ہیں، اِسی پر رہے تو (اللہ تو ہم پر بےحد مہربان ہے ہی) بحیثیت قوم، عوام الناس اور ریاست کی خیر کون منائے گا؟ خاکسار کا یہ بیانیہ کہ ’’حکومت اور اپوزیشن ایک ہی پیج پر ہیں‘‘۔ ہے تو قدرے چونکا دینے والا کہ دونوں میں آگ اور پانی ایسا فرق ہے اور دونوں کا دعویٰ کہ ہم پانی ہیں، جو زندگی اور ترقی کی علامت اور پیاس بجھانے کا لازمہ ہے۔

ایسے میں قارئین کا یہ سوال تو بنتا ہے کہ ناچیز نے یہ کیسے اور کہاں سے اخذ کر لیا کہ اتحادی حکومت اور اتحادی ہی اپوزیشن ایک پیج پر ہیں؟ ہر تجزیے میں تو اختلاف شدت اختیار کرتے انتشار میں تبدیل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور اِس دھڑکے کا اظہار بھی کہ پیدا ہوا انتشار بڑھ کر تواتر سے ہوتے تصادم (خاکم بدہن) میں تبدیل نہ ہو جائے۔

قارئین کرام! یاد دلانا چاہتا ہوں گزرے ’’بدترین جمہوریت کے عشرے‘‘ (2008-18)میں آئینِ نو میں ملک و قوم کے بدتر سماجی ناانصافی اور لاقانونیت میں مبتلا ہونے، آئین سے روگردانی اور بیمار قومی سیاست کے ڈھانچہ گھڑے گئے، سیاسی خاندانوں کی ہوس پر قائم نظامِ بد (اسٹیٹس کو) کی تواتر سے نشاندہی کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ دونوں بڑی مقبول (پارلیمانی ریکارڈ کی حامل) جماعتیں قومی سیاست کے ایک ہی رنگ ڈھنگ پر مکمل متفق اور غیرعلانیہ اتحاد کر چکی ہیں۔

عوام کو بےوقوف بنانے کے لیے بہت آسانی سے سمجھ آنے والی ’’نورا کشتی‘‘ بھی بدترین جمہوریت کے تھیٹر پر مسلسل لڑی جاتی رہی۔ الیکشن 13کے بعد ن لیگی حکومت نے عوامی مفادات اور اپنی سابقہ ادوار کی انتہائی دھما چوکڑی کے مداوے کے طور پر قدرے بہتر حکومت کا کردار ادا کیا، نہ ہی پیپلز پارٹی نے اپنی روایتی اپوزیشن کے مطابق اپوزیشن کا کردار ادا کیا بلکہ ایوانِ صدر کے رخصتی ظہرانے میں پارٹی قائد اور سابق ہو جانے والے صدرِ مملکت آصف زرداری نے ن لیگ کو گرین سگنل دیا کہ اب ’’وہ پانچ سال (بغیر ہمارے چیک کے) حکومت کریں، ہم پانچ سال بعد اپنی سیاست کریں گے‘‘۔

امر واقع ہے کہ 22سال سے تبدیلی کے لیےجدوجہد کرنے والی پاکستان تحریک انصاف الیکشن 18، ایک سال قبل، خود اسٹیٹس کو کے رنگ میں بہت تیزی سے رنگی گئی۔ اس کا عمل تو لاہور کے اکتوبر 2011کے پی ٹی آئی کو تیزی سے مقبول پارٹی بنانے والے جلسے کے بعد سے شروع ہو گیا تھا۔

جب پی پی اور ن لیگ کے ہر سطح کے کتنے ہی ٹوٹے تارے پی ٹی آئی میں شامل ہونے لگے لیکن اصل ریلا الیکشن 18سے چند ماہ قبل پی پی کے الیکٹ ایبل اور اُن کے معاونین اور مخصوص ورکرز کی شکل میں داخل ہوا۔ اب تک 22سالہ تحریک انصاف پارٹی ڈھانچے میں کون کیا ہے؟، کا درست جواب حاصل کرنے کے لیےکوئی فلٹر نہیں لگا سکی۔ انتہائی مشکوک اور مکمل روایتی سیاسی ذرائع سے ایسے ایسے نابغہ روزگار پارٹی میں داخل کئے گئے اور کرائے گئے کہ پارٹی قائد کو کچھ سجھائی نہ دیا۔

نظریاتی کارکن بہت تیزی سے اطراف میں کر دیے گئے اور اُنہوں نے عمران خان کے گرد ایک ایسا حصار تیار کر دیا کہ وہ وزیراعظم بن کر بھی اِس سے نکل نہیں پا رہے۔ ’’آئینِ نو‘‘ میں انتباہ کے طور پر پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے امکان کے پیشِ نظر اُسے اقتدار کو بہتر طور پر سنبھالنے، گڈ گورننس اور مسائل کے اختراعی حل پر مبنی ہوم ورک کرنے پر زور دیا گیا لیکن ایسی ہر آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔

نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کا آغاز ہی عجیب و غریب انداز میں ہوا۔ پہلے مراکزِ اقتدار وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کے عوامی فلاحی مقامات میں تبدیل کرنے کا شور مچا، بنی گالا کو وزیراعظم ہائوس بنا دیا گیا، سادگی اور اخراجات میں کمی کا آغاز، پی ایم ہائوس کی کار، فلیٹس اور ڈیری کی چند گائے بھینسوں کی نیلامی ہوئی۔ عوام دوستی کی جو ترغیبات، انتخابی مہم میں زور شور سے دعوؤں کے طور پر پیش کی گئیں اور کئی برسوں سے سیاسی ابلاغ میں آتی رہیں، کی جانب ابتدائی قدم بھی نہ اٹھائے گئے۔

جیسے اڑھائی کروڑ اسکول ایج کے بچوں کو اسکول بھیجنے کا عزم، تھانہ کچہری کلچر ختم کرنے کا دعویٰ سب سے بڑھ کر احتسابی عمل کو نتیجہ خیز بنانا اور کتنے ہی۔ کچھ بھی تو نہ ہوا۔

آج حکومت، حکومت ہے نہ اپوزیشن، اپوزیشن، گویا پی ٹی آئی بھی، اسی اسٹیٹس کو کا حصہ بن گئی جو تماشا پی پی اور ن لیگ نے طویل عرصہ تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد پھر اقتدار ہاتھ لگنے کے دس برسوں میں لگایا آج حکومت سارے مسائل کا حل دھڑا دھڑ بڑے سائز کی نااہل (ایٹ لارج) کابینہ کے اجلاسوں میں تلاش کر رہی ہے یا پھر ٹائیگر فورس پر انحصار کرتی نظر آتی ہے جبکہ اپوزیشن اپنے تمام تر تجربے اور دعوؤں کے باوجود انتہائی عاقبت نا اندیشی اور غیرذمہ داری پر تلی ہوئی ہے۔ وہ اپنے سیاسی مفادات کی ہی اسیر ہے اور سارا زور احتساب سے بچنے اور ساتھ ساتھ اقتدار اور قومی سیاست کو دو گھروں کا پابند رکھنے کے لیے لگایا جا رہا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی تضاد بیانی ایک دوسرے سے بڑھ کر۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر سخت رجعت پسند ہیں۔ سابقہ حکمرانوں (موجودہ اپوزیشن) پر کرپشن کے کھلے کھلے اسکینڈلز مکمل ثبوتوں کے ساتھ عام ہونے کے بعد انہوں نے کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع گنوایا حالانکہ ثبوت ملے نہ ملے، قانونی موشگافیوں میں عدالتیں سزائیں دے سکیں یا نہ دے پائیں، عوام میں ملک کا خزانہ خالی کرنے اور دنیا بھر میں ناجائز جائیدادیں بنانے کا ٹرینڈ یقیناً اپنی جگہ ہے۔ پھر پی ٹی آئی کونسی دودھ کی دھلی ثابت ہوئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر مشکوک اور نااہل آج کے حکومتی سیٹ اپ میںہے۔ ریت سے مچھلی نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔

’’پیمرا‘‘ نے جو میڈیا کے ساتھ کیا اور کر رہا ہے، وہ اسٹیٹس کو کی روایتی ذہنیت کا عکاس ہے۔ بیورو کریسی پہلے دھماچوکڑی ادوار کی بڑی بینی فشری بن کر ان کی ہو گئی اور اسے عوام سے کوئی سروکار نہ تھا۔ یہی کچھ آج ہے کہ وہ عوام کی خدمت کی نوکری سے یکسر بےنیاز اور موجودہ حکومت کے خلاف مزاحمت بھی اس کی واضح ہے۔ یوں اس کا اسٹیٹس کو عوام مخالف ذہنیت کے حوالے سے قائم دائم ہے۔ شکلیں اپنی اپنی اسٹیٹس کو پر اڑے رہنے کا ذہن حکومت اور اپوزیشن کا یکساں ہے۔

پچھلی حکومتوں میں بھی حکمرانوں کے کھلواڑ نے عوامی خدمات کے اداروں کو تباہ کر کے، ترقیاتی پروجیکٹس کے نام پر کرپشن کا بازار کر کے بھاری رقوم بیرون ملک ٹھکانے لگائیں۔ آج کے حکمرانوں کی صفوں میں بھی شامل آٹے گھی دوائیوں کی ترسیل روک کر ذخیرہ اندوزی اور طرح طرح کے حربوں سے گھپلوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ جاری مہنگائی کا ایک بڑا فیصد مصنوعی ہے اور اس میں اپوزیشن کے ظالم (عوام کے لیے) وفادار صنعتکار اور تاجروں کے علاوہ کرپٹ ادوار میں غیر قانونی مزے لوٹنے والی افسر شاہی کی فن کاریاں بھی بڑا سبب ہیں۔

ان کی اپنی حکومتوں میں یہ کام کھلی چھٹی سے ہوتا تھا لیکن جب عوام کی چیخ، پکار بڑھتی تھی تو کم کرنے کا بٹن حکومت کے ہاتھ میں ہی ہوتا تھا۔ موجودہ حکومت کے پاس عوام کی اشک شوئی کے لیے کچھ بھی نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔