22 اکتوبر ، 2020
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری اور سندھ پولیس پر دباؤ کے معاملے پر سینیٹ میں قرارداد پیش کردی گئی۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق کی پیش کی گئی قرارداد میں لکھا گیا ہے کہ کراچی میں مریم نواز کی پرائیویسی میں مداخلت کی گئی، کیسے آئی جی سندھ کو اغوا کیاگیا؟
قرارداد میں معاملے کی تحقیقات کیلئے سینیٹ کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے سینیٹ کو بتایا کہ کراچی واقعے کی سندھ حکومت اور آرمی چیف نے انکوائری کا حکم دیا ہے، دونوں انکوائری رپورٹس کا انتظار کرنا چاہیے۔
راجہ ظفر الحق نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سب ان رپورٹس کا انتظار کریں، مریم نواز سے پیش آنے والے واقعے کے حقائق سامنے آنے چاہئیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ اس معاملے میں پارلیمان کی مداخلت لازم ہے۔ پولیس با وردی اور اسلحہ بردار فورس ہے ، تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انھوں نے احتجاج کیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ریاست کے خلاف احتجاج کر رہی ہے، یہ انتہائی خطرناک بات ہے، پارلیمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
بعد ازاں معاملہ چیئرمین سینیٹ نے قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کر دیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے 18 اکتوبر کو کراچی کے باغ جناح میں جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکت کیلئے ن لیگ کا وفد مریم نواز کی قیادت میں 18 اکتوبر کی صبح کراچی پہنچا جس میں کیپٹن (ر) صفدر بھی موجود تھے۔
ن لیگ کا وفد مزار قائد گیا جہاں مریم اور دیگر رہنماؤں نے قبر پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر کیپٹن (ر) صفدر نے ’ووٹ کو عزت دو‘ اور ’مادر ملت زندہ باد‘ کے نعرے لگوادیے جس پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
18 اکتوبر کو پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد 19 اکتوبر کی علی الصبح سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو سندھ پولیس نے مزارِ قائد کا تقدس پامال کرنے کے مقدمے میں کراچی کے نجی ہوٹل سے گرفتار کیا جنہیں بعدازاں مقامی عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا تھا۔