پاکستان
Time 26 اکتوبر ، 2020

اکتوبر: تاریخی اہمیت رکھنے والا مہینہ عمران خان کیلیے بھی کیوں اہم؟

فائل فوٹو

اکتوبر کا مہینہ نہ صرف پاکستان کیلئے تاریخی اور سیاسی اہمیت رکھتا ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان، نواز شریف، میر ظفراللہ جمالی، جنرل (ر) پرویز مشرف اور مولانا فضل الرحمان کی زندگی کے کئی ناقابل فراموش واقعات بھی اسی مہینے میں پیش آئے۔

عمران خان کی زندگی میں اکتوبر یوں اہم ہے کہ ان کی پارٹی کا مینار پاکستان میدان لاہور میں وہ یادگار جلسہ 30 اکتوبر 2011کو ہی ہوا جس سے ملنے والی قوت نے بالآخر انہیں ایوان وزیراعظم میں پہنچایا۔

عمران خان پیدا بھی 5 اکتوبر 1952 کو ہوئے تھے۔ یکم اکتوبر 2012کو طالبان نے حکیم اللہ محسود کی صدارت میں کمانڈرز کے اجلاس کے بعد عمران خان کی 6 اکتوبر کو ہونے والی ریلی کیلئے سکیورٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی کیونکہ یہ ریلی ڈرون حملوں کیخلاف تھی۔

اس ریلی کے نتیجے میں عمران خان کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے کافی حمایت حاصل ہوئی جس کے ثمرات بعد میں ملتے رہے، پرویز مشرف کے وردی اتارے بغیر 6 اکتوبر2007کو ہونے والے صدارتی الیکشن لڑنے پر احتجاج کیلئے 2 اکتوبر 2007کو عمران خان نے بھی 85 ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ استعفیٰ دے دیا، 11 اکتوبر 2019کو عمران خان نے ترک صدر اردوان سے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے ترکی کی تشویش کو پوری طرح سمجھتا ہے۔

اس بیان کو ترکی اور مشرق وسطیٰ میں بہت اہمیت دی گئی، جنوری 2015 میں اعلان کیا گیا کہ عمران خان نے پاکستانی نژاد برطانوی صحافی ریحام خان سے اپنی رہائش گاہ پر نکاح کرلیا ہے لیکن ریحام خان نے بعد میں اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کی شادی دراصل اکتوبر 2014میں ہوگئی تھی لیکن اعلان جنوری 2015میں کیا گیا۔

دونوں نے علیحدگی کا فیصلہ بھی اکتوبر ہی کی 22 تاریخ کو کیا، اب اکتوبر ہی میں ہی عمران خان کو اپوزیشن کا حقیقی چیلنج درپیش ہے، اسی ماہ کے آغاز ہی میں 11 جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے مولانا فضل الرحمان کو اپنا سربراہ چنا۔

گزشتہ سال 30 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان کا عمران حکومت کیخلاف لانگ مارچ لاہور پہنچا تھا، یہ مولانا کا سب سے بڑا سیاسی جلوس تھا، انہوں نے مینار پاکستان میدان میں بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا۔

یہ مارچ 13 نومبر کو ختم کرکے پلان بی کے طور پر بڑی سڑکوں کو بند کیا گیا، نواز شریف کے 19 اکتوبر کو ایر ایمبولینس پر لندن روانہ ہونے کے ساتھ ہی احتجاج ختم کردیاگیا، 10 اکتوبر 2002 کو ہونے والے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان نے متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) کی قیادت کی تھی۔

ان انتخابات کے بعد پرویز مشرف کی حمایت سے مسلم لیگ ق کو اکثریت مل گئی اور میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بنے لیکن ایم ایم اے نے 63 نشستیں جیت کر سب کو حیران کردیا تھا، پیپلز پارٹی نے81 نشستیں لیں اور مسلم لیگ ن کا صفایا ہوگیا۔

اس سے تین سال پہلے 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر کی 12 تاریخ کو ہی نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا، 2010 میں اکتوبر کے مہینے میں ہی پرویز مشرف نے لندن کے ایک کلب میں اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ بنانے کا اعلان کیاتھا۔

اس سے پہلے 16 اکتوبر 1951کو پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں قتل ہوئے اور 17 اکتوبر کو ملک غلام محمد نے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔

غلام محمد کے استعفے کے بعد سکندر مرزا نے یکم اکتوبر 1955 کو ہی عہدہ سنبھالا، 7 اکتوبر 1958 کو انہوں نے مارشل لا لگا دیا۔ 27 اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے انہیں چلتا کیا، 26؍ اکتوبر1959 کو ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا تصور دیا اور اگلے دن فیلڈ مارشل بن گئے۔

نواز شریف 24 اکتوبر 1990 کے الیکشن کے نتیجے میں وزیراعظم بنے، 6 اکتوبر 1993کے الیکشن کے نتیجے میں بینظیر دوبارہ وزیراعظم بنیں، 8 اکتوبر 2006 کو ملک میں بدترین زلزلہ آیا اور 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر سانحہ کارساز پیش آیا۔

نوٹ: یہ مضمون 26 اکتوبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔

مزید خبریں :