04 نومبر ، 2020
مجبوری تھی یا غلطی لیکن بہر حال وارآن ٹیرر کا حصہ بننے کا فیصلہ فوجی حکمران پرویز مشرف نے کیا تھا اور 2001 سے پاکستانی سیکورٹی فورسز فرنٹ لائن پر یہ جنگ لڑ رہی ہیں۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ پختونوں کو لاشیں اٹھانی پڑیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کی قیمت پوری قوم اور سب سے زیادہ سیکورٹی فورسز نے ادا کی، ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں 83 ہزار پاکستانی لقمہ اجل بنے جن میں 25 ہزار سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔
اس جنگ سے متعلق مختلف سیاسی عناصر کا موقف مختلف رہا۔ ،تاہم دو جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پہلے دن سے پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی اختلاف کے باوجود اس جنگ کی حمایت کی۔
دینی جماعتوں اور بالخصوص جے یوآئی نے یوں بالواسطہ مدد کی کہ دباؤ اور پس منظر ایک ہونے کے باوجود ٹی ٹی پی کے بیانیے سے لاتعلقی ظاہرکردی، نتیجتاً یہ جماعتیں خاص طور پر نشانہ بنتی رہیں، مسلم لیگ(ن) پہلے اگر مگر کا شکار رہی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس نے بھی اس جنگ کو اون (Own)کیا تاہم عمران خان واحد ایسے لیڈر ہیں جو اقتدار میں آنے سے قبل بھی اس جنگ میں سیکورٹی فورسز کی مخالف سمت میں کھڑے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں کہ وہ (سیکورٹی فورسزکی) اس جنگ کے شروع دن سے مخالف ہیں۔
قیادت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے بڑی قربانی پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی شکل میں دی لیکن اگر رہنماؤں اور کارکنان کی تعداد کےحوالے سے دیکھا جائے تو قربانی دینے میں اے این پی پہلے نمبر پر ہے۔
گیارہ فروری 2009کو اے این پی کے ایم پی اے عالم زیب خان خودکش دھماکے میں مارے گئے، یکم دسمبر 2009 کو سوات سے تعلق رکھنے والے ایک اورایم پی اے شمشیر علی خان ٹی ٹی پی کے ہاتھوں مارے گئی، پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کو ٹی ٹی پی نے ایک خود کش حملے کے ذریعے نشانہ بنانا چاہا لیکن ان کے محافظوں نے اپنے آپ کو قربان کرکے ان کی زندگی بچا لی۔
اے این پی کے بلور خاندان نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، بشیر احمد بلور 22 دسمبر 2012 کو خودکش حملے میں لقمہ اجل بنے، پھر ان کے بڑے بھائی غلام احمد بلور اور بیٹے ہارون بلور کو 2013 میں خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ تو بچ گئے لیکن پارٹی کے درجنوں کارکن جاں بحق ہوئے۔
ان کا پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا گیا اور 10جولائی 2018 کو پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک خود کش کارروائی کے نتیجے میں ہارون بلور اللہ کو پیارے ہوگئے، اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین ٹی ٹی پی کا پرائم ٹارگٹ رہے، الحمدللہ وہ بچتے رہے لیکن ان کے اکلوتے بیٹے کو نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کی فاتحہ خوانی کے موقع پر ان کے حجرے میں ایک اور خودکش حملہ کیا گیا۔
ان کے درجنوں جلسوں میں دھماکے ہوئے، افضل خان لالا، حیدر ہوتی اور درجنوں رہنماؤں کو مارنے کی متعدد کوششیں ہوئیں، جے یوآئی کی بات کریں تو اس جماعت کے قائد مولانا فضل الرحمٰن کو مارنے کے لیے تین خودکش حملے ہوئے جن میں درجنوں لوگ شہید ہوئے لیکن وہخود معجزانہ طور پر بچتے رہے۔
ان کے گھر پر میزائل بھی فائر کرائے گئے، اسی طرح ان کی جماعت کے رہنماؤں اکرم خان درانی، محمد خان شیرانی اور غفور حیدری پر بھی حملے ہوئے، ان کی جماعت کے مولانا حسن جان کو 2007 میں نشانہ بنایا گیا، اسی طرح ان کی جماعت کے مولانا معراج الدین بھی دہشت گردی کی نذر ہوئے۔
اب آتے ہیں پی ڈی ایم میں شامل جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف، اس جماعت کے صوبائی صدر امیر مقام دو خودکش حملوں میں معجزانہ طور پر بچے جبکہ ایک دھماکے میں ان کے کزن پیر محمد خان لقمہ اجل بنے۔
اسی جماعت کے ذوالفقار کھوسہ، جب شہباز شریف کے مشیر تھے،پر 2009 میں خودکش حملہ کیا گیا لیکن وہ بچ گئے، نون لیگ ہی کے ایم این اے امجد خان کھوسہ کو مارنے کے لیے 14 اکتوبر 2015کو تونسہ شریف میں دھماکہ کیا گیا لیکن وہ بچ گئے۔
سردار ثنااللہ زہری جب مسلم لیگ(ن) کے رہنما تھے، ان پر خودکش حملہ ہواجس میں وہ خود تو بچ گئے لیکن ان کا بھائی اور بیٹا جاں بحق ہوئے،کرنل شجاع خانزادہ، جو شہباز شریف کابینہ کے وزیر تھے، 16 اگست 2015 کو ایک خودکش حملے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔
اسی طرح 2008 میں اس جماعت کے ایم این اے رشید اکبر نوانی کو ایک خود کش دھماکے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ محفوظ رہے۔
پی ڈی ایم میں شامل ایک اور جماعت کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ ہیں، ان پر تین تباہ کن خود کش حملے کیےگئے، ایک حملے میں تو ان کے صاحبزادے بھی زخمی ہوئے، ان پر جتنے بھی حملے ہوئے، ان میں درجنوں افراد لقمہ اجل بنے لیکن الحمدللہ وہ معجزانہ طور پر بچتے رہے۔
دوسری طرف گزشتہ آٹھ دس سال کے دوران سب سے زیادہ جلسے جلوس پی ٹی آئی نے کیے لیکن الحمدللہ اس کے کسی جلسے میں دھماکہ نہیں ہوا، 2013 سے اب تک پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں حکمران ہے لیکن صد شکر کہ نہ تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو مارنے کی کوشش ہوئی اور نہ محمود خان کو، خودکش حملوں میں نشانہ بنتے وقت گنڈاپور برادران کا تعلق پی ٹی آئی سے ضرور تھا لیکن ان کے بھائی ان کے قتل کا ذمہ دار پی ٹی آئی کے ایک وزیر کو سمجھتے ہیں۔
الحمد للہ آج تک سوات، باجوڑ اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رہنما بھی ٹی ٹی پی کا ٹارگٹ نہیں رہے، اب جبکہ مرکز اور پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور ٹی ٹی پی دوبارہ منظم ہوگئی ہے تو جو نئی ٹارگٹ لسٹ اس کی طرف سےنکالی گئی اور پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے مشتہر کی گئی، اس میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور میاں افتخار حسین کے نام تو ہیں لیکن الحمدللہ پی ٹی آئی کے کسی رہنما کا نام نہیں۔
حکومت میں آنے کے بعد عمران خان اور ان کے ترجمان دن رات بتاتے رہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی انڈین خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کروا رہی ہے، گویا ان کے خیال میں ٹی ٹی پی ”را“ کی کارندہ ہے، اب ایک سوال یہ ہے کہ اگر وہ ”را“ کے کارندے ہیں تو پھر انہوں نے ان کے خلاف ملٹری آپریشنز کی مخالفت کیوں کی؟ اور ان کے وزیراعلیٰ نے کیوں اُن کو پشاور میں دفتر کھولنے کی آفر کی ؟ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی ہندوستان کے مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے تو پھر اس کا پہلا نشانہ پی ٹی آئی کیوں نہیں ؟
عمران خان ہمیں بتارہے ہیں کہ پی ڈی ایم اتحاد ہندوستان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ٹی ٹی پی نے سب سے زیادہ ہندوستان کے ایجنڈے پر عمل پیرا سیاسی جماعتوں کو کیوں نشانہ بنایا ؟ دو باتوں میں سے ایک کو ماننا ہوگا۔
یعنی یا تو یہ ماننا ہوگا کہ ٹی ٹی پی ہندوستان کے ایجنڈے پر عمل پیرا نہیں اور یا پھر یہ ماننا ہوگا کہ پی ڈی ایم اتحادہندوستان کا اصل دشمن ہے ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کا ایک کارندہ اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والوں کے پیچھے پڑا ہوااور ہندوستان کی اصلی دشمنی کاکریڈٹ لینے والی جماعت یعنی پی ٹی آئی کو معاف رکھے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔