11 نومبر ، 2020
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار اور جوبائیڈن کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ جذبات سے کھیلنے، بڑھک بازی سے کام لینے، نفرتوں کو ہوا دینے اور اوٹ پٹانگ بیانات کے ذریعے عارضی تبدیلی لائی جاسکتی اور معاشرے میں ہیجان تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن سیاسی اور سماجی ارتقا کے پہیے کو واپس نہیں گھمایا جاسکتا۔
جبر اور ظالمانہ اقدامات کے ذریعے وقتی بریک تو لگ سکتا ہے، لیکن جلد یا بدیر قوم کا اجتماعی ضمیر جاگتا اورسماجی حقائق اپنا کام دکھا دیتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف اقتدار تک پہنچے تھے اور حکمران بننے کے بعد بھی مخالف سمت میں چلتے رہے جبکہ عمران خان کا معاملہ اس سے الٹ ہے لیکن دونوں کی کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں جس کا اعتراف خود خان صاحب نے جرمن میگزین کے ساتھ انٹرویو میں بھی کیا۔
مثلا سی این این کے فرید ذکریا کے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ تنگ دل، تنگ نظر اور غیرروادار حکمران تھے اور یہی اوصاف عمران خان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔
ٹرمپ چونکہ مکمل خود مختار تھے، اس لیے ان کا یہ جذبہ بیرونی محاذ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اقدامات میں بھی ظاہر ہو جاتا تھا لیکن عمران خان چونکہ پاکستانی مارکہ حکمران ہیں اس لیے ان کے منفی جذبات کا نشانہ سیاسی حریف یا پھر تنقید کرنے والا میڈیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے تبدیلی کے نام پر امریکی اقدار (لبرٹی، اقلیتوں اور تارکین وطن کے یکساں حقوق) کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ عمران خان نے تبدیلی کے نام پر پاکستان کی سیاست اور سماج کی مشرقی روایات، چھوٹے بڑے کی تمیز اور خواتین کے احترام جیسی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا۔
ٹرمپ نے امریکی سیاست کو حد درجہ پولرائز کیا اور عمران خان نے پاکستانی سیاست کو۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی میڈیا نے نہیں بلکہ اپنی دولت اور چالاکی نے حکمران بنایا جبکہ عمران خان کو مسیحا ثابت کرنے اور لیڈر بنانے میں پاکستانی میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد دونوں میڈیا کے دشمن بن گئے۔
امریکا میں چونکہ ادارے مضبوط ہیں اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا کو گالیاں دینے پر ہی اکتفا کرتا رہا لیکن عمران خان نے معاشی حوالوں سے بھی پاکستانی میڈیا کا گلاگھونٹا، اس کی آزادی پر بھی قدغنیں لگائیں اور میر شکیل الرحمٰن جیسے میڈیا کے سرخیلوں کو جیلوں میں بھی ڈالا۔
انا پرستی اور خود پسندی کے شکار ہونے کی وجہ سے ٹرمپ کے ساتھ بھی ان کی ٹیم کے لیے کام مشکل تھا بار بار اپنے مشیروں اور کور ٹیم کے ارکان کو تبدیل کرتے رہے (کل ہی انتخابات کے بعد انہوں نے اپنا سیکرٹری دفاع تبدیل کیا) جبکہ عمران خان بھی تبدیلی اسی کو کہتے ہیں کہ ہر روز اپنے وزیر، مشیر اور بیوروکریٹ تبدیل کرتے رہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ صرف ان کے یہودی داماد مستقل مزاجی کے ساتھ چل رہے ہیں جبکہ عمران خان کے ہاں یہ حیثیت ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو حاصل ہے۔
ٹرمپ بھی اپنے سیاسی مخالفین پر الزامات لگانے اور کیچڑ اچھالنے میں انتہائی حدوں تک چلے جاتے ہیں اور عمران خان بھی اس حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔
ٹرمپ نے امریکا کے سیاسی نظام اور اداروں پر اعتماد کو مجروح کیا جبکہ یہی ”کارنامہ“ عمران خان نے پاکستان میں سرانجام دیا ۔
ٹرمپ تجزیوں اور سروے کے برعکس جیتے تو انتخابی نظام پر کوئی سوال نہیں اٹھایا ، اب ہارے تو انتخابی نظام سے متعلق سوال اٹھانے لگے ہیں۔
عمران خان 2013میں ہارے تو آسمان سر پر اٹھالیا لیکن اب کی بار متنازعہ ترین الیکشن میں جیتے تو سوال اٹھانے والوں کا جینا حرام کرتے ہیں۔یہاں تو عمران خان کے آنے سے قبل ان کو لانے کی خاطر عدلیہ ، نیب اور پارلیمنٹ (سینیٹ کے انتخابات وغیرہ) کے وقار کو مجروح کیا گیا ۔
اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی بھی افراط و تفریط کی شکار رہی اور عمران خان کی بھی۔ ٹرمپ آج شمالی کوریا کو دھمکی دیتا ہے اور اگلے روز ان کے صدر سے ملاقات طے کرلیتاہے ۔
ایک دن طالبان کو دھمکیاں دے کر ان کے ساتھ مذاکرات ختم کردیتا ہے اور دوسرے دن سب کچھ ان کی جھولی میں ڈال دیتا ہے ۔یہی معاملہ عمران خان کا ہے ۔ ایک روز وہ سب کچھ سعودی عرب کی جھولی میں ڈال دیتا ہے اور دوسرے دن انہیں ناراض کردیتا ہے ۔
اسی طرح الٹے سیدھے بیانات کی وجہ سے عالمی سطح پر امریکا کا مذاق اڑایا جاتا ہے جبکہ عمران خان کے بیانات کی وجہ سے آئے روز یہی سبکی پاکستانیوں کو اٹھانا پڑتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔
تاہم ایک اور معاملہ دونوں کا یکسر الٹ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ سب کچھ کیا لیکن امریکی معیشت کی حالت بہتر بنا دی جبکہ عمران خان نے جتنا اداروں اور اقدار کا ستیاناس کیا، اس سے بڑھ کر معیشت کا بیڑہ غرق کروایا ۔
بہ ہر حال چار سال بعد امریکی عوام نئے امریکا سے تائب ہوگئے اور جوبائیڈن کو جتوا کر پرانے امریکا کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا جبکہ پاکستانی ابھی نئے پاکستان کو بھگت رہے ہیں۔
داخلی محاذ پر جوبائیڈن کے صدر بننے سے کیا تبدیلیاں آئیں گی یا پھر کیا تبدیلیاں ریورس ہوں گی، وہ امریکی جانیں لیکن ہمیں زیادہ دلچسپی خارجہ پالیسی میں ہونی چاہئے کیونکہ ان کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ بنیادی تبدیلی یہ آئے گی کہ امریکا اپنے عالمی کردار کو ایک بار پھر بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ ایران کے ساتھ دوبارہ نیوکلیئر معاہدے کی کوشش کرے گا۔
چین کے تناظر میں انڈیا کے چہیتے اور اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت برقرار رہے گی لیکن گاہے گاہے وہاں پر اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے۔افغانستان کا معاملہ ٹرمپ جس لائن پر لے جارہے تھے، اسی لائن پر لے جایا جائے گا لیکن طالبان کے ساتھ ڈیلنگ کی شرائط سخت ہوجائیں گی۔
ٹرمپ کی طرح افغانستان کو اس کی حالت پر چھوڑ کر افواج کو نہیں نکالا جائے گا بلکہ بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ محدود شکل میں فوجی موجودگی کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کو ٹرمپ بھی افغانستان کے آئینے میں دیکھ رہا تھا اور بائیڈن بھی اسی آئینے میں دیکھیں گے لیکن جوبائیڈن کی طرف سے ڈومور کی صدا بلند ہوسکتی ہے۔
چین کو حسب سابق امریکا اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھے گا اور چین کا چہیتا ہونے کے ناطے پاکستان بدستور امریکا کی آنکھوں میں کھٹکتا رہے گا لیکن جوبائیڈن چین سے متعلق وہ پاگل پن نہیں دکھائیں گے جو ٹرمپ دکھارہے تھے۔ وہ قبائلی انداز میں مقابلہ کرنے کی بجائے معاشی اور سفارتی میدان میں چین پر دباؤ بڑھائیں گے۔
ٹرمپ کو پاکستان یا کسی اور ملک کے اندر جمہوریت، انسانی حقوق اور پریس کی آزادی سے کوئی غرض نہیں تھی لیکن جوبائیڈن کی ترجیحات میں پاکستان جیسے ملکوں کے اندر ان کے لیے آواز اٹھانا بھی شامل ہوگا۔ امریکا ہو یا کوئی اور ملک، اسے بنیادی غرض اپنے قومی مفادات سے ہوا کرتی ہے اور وہ پاکستان سمیت ہر ملک کے ساتھ اسی تناظر میں ہی تعلق رکھتا ہے لیکن ٹرمپ کے ٹرمز آف گیم ہر وقت بدلتے تھے جبکہ جوبائیڈن کے پاکستان یا افغانستان سے متعلق ٹرمز آف گیم معلوم ہوں گے۔
بائیڈن پاکستان سے بھی اچھی طرح واقف ہے، افغانستان سے بھی اور انڈیا سے بھی اور کوئی بھی انہیں صرف باتوں سے بہلا نہیں سکے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔