Time 13 نومبر ، 2020
بلاگ

قوم جذباتی ہوگئی تو…

فوٹو: فائل

چیستاں میں لپٹی ایک پہیلی خاصی تگ و دو کے باوجود نہیں سلجھ رہی، گزشتہ منگل کی شام سے یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ پاکستانی قوم جذباتی اور حساس ہے یا پھرجذبات سے عاری بے حس افراد کا ہجوم ؟گا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقوامِ عالم میں ہمیں ملکہ جذبات کا خطاب ملنا چاہیے۔

ذراسی بات پر ہمارے نازک مزاج برہم ہوجاتے ہیں اور ہم نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹے یا شیشیانیوں کو رنج و الم کا سامنا ہو ،فلسطینیوں پر زندگی کی راہیں مسدود کر دی جائیں یا روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہو، ہمارے دل نازک آبگینوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور ہم اضطراب کی حالت میں انہیں درپیش صورتحال سے نکالنے کے لیے ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگتے ہیں۔

پہلے تو جہاد کا نعرہ مستانہ لگانے میں بھی دیر نہیں لگتی تھی مگر اب زنجیروں میں جکڑ دیے جانے کے باوجودبھی امدادی کیمپ لگانے اور احتجاجی جلوس نکالنے سے باز نہیں آتے۔

ہاں البتہ جذبات کو انگیخت کرنے کےلیے مظلوموں کا بیرون ملک کافروں کی تحویل میں ہونا ازحد ضروری ہے، ہم عالمی استعمار کے خلاف جہاد کے علمبردار ہیں، اس لیے کسی مقامی مسئلے کی طرف ہمارے جذبات مبذول کروانے کی کوشش ہرگز نہ کی جائے۔

دنیا کے کسی بھی کونے میں اسلام خطرے میں پڑ جائے تو ہماری خدمات حاضر ہیں، اس حوالے سے ہماری حساسیت کا یہ عالم ہے کہ سیاسی تحریک بھی تب تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک مذہب کا تڑکہ نہ لگایا جائے۔

پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے حکومت مخالف تحریک شروع کرتے وقت انتخابات میں دھاندلی کا شور ضرورمچا یا تھا لیکن جلاؤ گھیراؤ کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت تب رُخصت ہوئی جب یہ احتجاج تحریک نظام مصطفیﷺ میں تبدیل ہوگیا۔

ضیا الحق جیسے دوغلے شخص کو ہماری قوم نے مردِ مومن، مردِحق کا خطاب اس لیے دے ڈالا کہ اس نے اسلام کے سایہ عاطفیت میں پناہ لے لی، عمران خان کب سے قوم کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے،مگر یہ کاوشیں تب بارآور ثابت ہوئیں جب انہوں نے ریاست مدینہ کا تصور دیا، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت مخالف اتحاد کی سربراہی ایک مذہبی شخصیت کو سونپی گئی ہے۔ 

ہماری جذباتیت کا یہ عالم ہے کہ محض ایک اچھی اور بھرپور تقریر پر فدا ہو جاتے ہیں، ہنستے ہنستے محض اس لیے تباہ ہو جاتے ہیں کہ کارکردگی چھوڑو ،یہ دیکھو اسمارٹ اور ہینڈسم تو ہے ناں، بات کرتا ہے تو چیخیں نکلوا دیتا ہے۔

سریع الانفعال ایسے ہیں کہ کان سنبھالنے سے پہلے کتے کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اورکچھ دور جا کر معلوم ہوتا ہے کہ کان تو سلامت ہیں، سریع الغضب اور سریع الاشتعال ایسے کہ کہیں کسی کو مار پڑ رہی ہو تو معاملے کی حقیقت معلوم کیے بغیر ہجوم کیساتھ ملکر مضروب کو ٹھڈے اور مکے مارنے لگتے ہیں۔

اس قومی مزاج کا یہ عالم ہے کہ سربراہ حکومت کو تھوڑی پر ہاتھ پھیر کر یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں اب بدلا ہوا انسان ہوں اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ متذکرہ بالا جذباتیت محض سیاست تک محدود نہیں ۔

ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس روش کے بھرپور مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، مثال کے طور پر ہماری کرکٹ ٹیم میچ ہار جائے تو غصے اور جذبات میں آکر ٹیلی وژن سیٹ توڑ ڈالتے ہیں ،ٹیم کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور اپنے ہیروز کے پتلے نذر آتش کرنے سے باز نہیں آتے۔

یہ تو تھا ہمارے قومی مزاج کا ایک پہلو مگر ایک اور تناظر سے دیکھا جائے تو ہم نہایت بے حس ،غیر جذباتی، بھلکڑ ،اچیت اور فراموش کار لوگ ہیں، ہماری بلا سے کوئی آئے ،جائے ،پھانسی چڑھ جائے ،ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

بھٹو کا خیال تھا،اس کے چاہنے والے جیل کا دروازہ توڑ کر اسے کندھوں پر اُٹھائیں گے اور پھر سے وزیراعظم کی کرسی پر بٹھائیں گے، کہا جاتا تھا کہ بھٹو کی موت پر ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا۔ 

نوازشریف کو بھی یہ خوش فہمی تھی کہ کسی نے جمہوریت پر شب خون مارا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے لیکن 12اکتوبر1999ء کو بھی یہ قوم جذباتی نہ ہوئی، پھر یوں ہوا کہ ترکی میں فوجی بغاوت ناکا م ہوگئی، لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تو ایک بار پھر یہ خیال چٹکیاں کاٹنے لگا کہ ترکوں کی طرح ہم بھی جذباتی ہو سکتے ہیں، لیکن ترکوں کے برعکس ہماری یادداشت بہت کمزور ہے۔ 

حافظے کی طرح ہماری جذباتیت بھی محدود وقت کےلیے ہوتی ہے، خبر جونہی چینل اور اخبار سے اُترتی ہے ،ہم نہ صرف صفحہ پلٹ کر آگے بڑھ جاتے ہیں بلکہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہوا تھا۔

کتنے واقعات نے اس شدت سے جھنجھوڑ ڈالا کہ لگتا تھا اب ہم خواب غفلت سے جاگ جائیں گے لیکن جھرجھری لینے کے بعد پھر گہری نیند سوگئے، قصور کی زینب اس ملک میں زیادتی کا شکار ہونیوالی آخری بچی تھی یا پھر موٹروے زیادتی کیس کے بعد جنسی زیادتی کے واقعات تھم گئے؟ باجوڑ کے مدرسہ تعلیم القرآن، پشاور کے اے پی ایس اور پھر دینی مدرسہ پر حملے کے بعد کیا سوفٹ ٹارگٹس پر حملے بند ہوگئے؟

کبھی تو لگتا ہے بے حسی انتہا کو پہنچ چکی اور اب ہمیں پل پار کرنے پر ٹیکس لینے اور جوتے مارنے کے سلوک پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہمارا مطالبہ بس یہ ہے کہ جوتے مارنے والے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جائے۔

لیکن بسااوقات سامنے آنے والے ردِعمل سے جذباتیت کے پہلو سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میرا خیال ہے کہ ہم کنفیوژ ہیں ۔کنفیوژ شخص جوش اور ہوش دونوں کھو بیٹھتا ہے، ایسے فرد یا قوم کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ 

منظم ترین اداروں اور موزوں ترین قیادت سے ہوش مندی کی توقع کی جاتی ہے لیکن ان کے ہاں جذباتیت کی فراوانی ہوتو ہجوم سے کیسے خرد کی توقع کی جا سکتی ہے؟ مسولینی نے کہا تھا،انبوہ چاہےلشکر ہو یا ہجوم ،کم ذات ہی ہوتا ہے۔یہ قوم جسے ہجوم کہا جاتا ہے ابھی تو کنفیوژ ہے لیکن کسی روز یہ جذباتی ہوگئی تو؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔