بلاگ
Time 14 نومبر ، 2020

گلگت بلتستان کے باسیوں کے نام

فوٹو: فائل

عمران خان کی طرح ملک کا حکمران ہوں، بلاول بھٹو کی طرح سندھ کا اور نہ مریم نواز کے خاندان کی طرح ماضی میں حکمران رہا ہوں، کسی سے ووٹ مانگا ہے اور نہ زندگی بھر مانگوں گا۔

ان تینوں میں سے کوئی حکمران ہو یا کوئی اور سیاسی یا غیرسیاسی شخصیت ، مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھے روز سیاست پہ بات کرنا پڑتی ہے لیکن سیاست نہیں بلکہ صحافت میرے رزق اور عزت و پہچان کا وسیلہ ہے، میں ایک صحافی ہوں اور صحافی ہی مروں گا۔

گلگت بلتستان، گوادر، لاہور اور نہ قبائلی اضلاع میں میرا کوئی کاروبار ہے، علی امین گنڈاپور کی طرح میں عمران خان کا وزیر یا مشیر ہے اور نہ اُن کی طرح خوشامد میری مجبوری اور گالیاں دینامیری ڈیوٹی ہے، میں زلفی بخاری کی طرح کسی لیڈر کا لاڈلا بھی نہیں ہوں، ان کی طرح بیرون ملک سرمایہ کاری کی ہےنہ اُن کی طرح ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے اور نہ ہی لندن میں جائیدادوں کا مالک ہوں ۔

اللہ گواہ ہے کہ مجھے آپ اور آپ کے گلگت بلتستان کے ساتھ پیار ہے، آپ بھی کہساروں میں رہتے ہیں اور میرے باپ داد کا تعلق بھی کہساروں کی سرزمین سے رہا۔

آپ کے باپ دادا کے پاس بھی آپشنز موجود تھے لیکن انہوں نے پاکستان کے ساتھ محبت کی خاطر اس کا حصہ بننے کے لئے جانیں نچھاور کردیں اور میرے باپ دادا نے بھی اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بننا قبول کیا۔ 

جواب میں آپ لوگوں کو بھی 70 سال تک بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا اور میرے باپ دادا کی سرزمین قبائلی اضلاع کو بھی، آپ کے ہاں بھی ایک لمبے عرصے تک ایف سی آر کے ظالمانہ قانون کو برقرار رکھا گیا اور میرے باپ دادا کے علاقے میں بھی ۔

آپ کو بھی پسماندہ رکھا گیا اور میری قوم کو بھی، شاید اسی لیے میں آپ کے درد کو زیادہ محسوس کرتا ہوں اور آپ لوگ ہمارے درد کو زیادہ محسوس کرتے ہیں (میں آج یہ انکشاف کرنا چاہتا ہوں کہ فوج کے اندر فاٹا کے انضمام کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں پشاور کے کورکمانڈر کی حیثیت سے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل ہدایت اللہ نے بنیادی کردار ادا کیا، جس کی تفصیل ان شااللہ آپ عنقریب قبائلی اضلاع سے متعلق میری کتاب میں دیکھ سکیں گے)۔

قبائلی اضلاع کی آبادی نسبتاً کم ہے لیکن اسٹرٹیجک حوالوں سے اس کی اہمیت دشمن کے لیے پاکستان کے کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ ہوجاتی ہے۔

اسی طرح آپ کی آبادی بھی نسبتاً کم ہے لیکن چین، انڈیا اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں متصل ہونے کی وجہ سے آپ کی اہمیت پاکستان کے دشمنوں کے لیے کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ بن جاتی ہے۔

گلگت بلتستان پاکستان کی شہ رگ تو تھا ہی، اب سی پیک کی شہ رگ بھی بن گیا ہے، میں آپ لوگوں کی دھرتی کی اسٹرٹیجک اہمیت سے بخوبی واقف ہوں اور اس لیے گزشتہ دس بارہ سال سے آپ کے آئینی حقوق اور صوبے کی حیثیت کے لیے حتی المقدور آواز اٹھارہا ہوں۔

اس تناظر میں آپ لوگوں سے میری پہلی التجا یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں اپنا ووٹ وقتی فائدے یا قبائلی بنیادوں کی بجائے اپنی سرزمین کی مذکورہ اہمیت اور حیثیت کو مدنظر رکھ کر استعمال کریں، آپ سنجیدہ قوم ہیں، آپ کے مسائل نہایت سنجیدہ ہیں۔

مستقبل قریب میں آپ کو غیرمعمولی مواقع بھی ملنے والے ہیں لیکن سنجیدہ چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، اس لیے مسخروں اور ڈرامہ بازوں کی بجائے سنجیدہ قیادت کا انتخاب کریں جو آپ کی رہنمائی کا حق ادا کرسکے۔

دوسری التجا یہ ہے کہ جھوٹے نعروں اور دعوؤں کا شکار نہ ہوں، مثلاً کچھ وزرا آپ کے سامنے آکر یہ جھوٹ بولتے رہے کہ ان کے لیڈر نے فاٹا کو پختونخوا میں ضم کیا جو ایک تاریخی جھوٹ ہے۔

قبائلی اضلاع کو ابتدائی بنیادی حقوق پیپلز پارٹی نے دیے تھے اور مکمل آئینی اور قانونی انضمام اس وقت ہوا تھا جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے۔

سرتاج عزیز کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان اضلاع کے لیے سالانہ جتنے فنڈز دینے کا وعدہ کیا تھا، ان کا دس فی صد بھی پی ٹی آئی کی حکومت وہاں پر خرچ نہ کرسکی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انضمام کے عمل پشاور کی بی آر ٹی جیسا حشر نشر کیا گیا۔

آپ لوگ پاکستان کے سب سے زیادہ تہذیب یافتہ، ملنسار اور شائستہ لوگ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے تیسری التجا یہ ہے کہ اس جماعت کو ووٹ دیں جو آپ کی ان روایات کو برقرار رکھ سکے۔

گالم گلوچ کرنے والوں اور سیاست میں بدتہذیبی کو عام کرنے والوں سے دور رہیے کیونکہ آپ کی آئندہ نسلوں کے اخلاق کو خراب کرکے یہ لوگ آپ سے یہ امتیاز چھین سکتے ہیں۔

چوتھی التجا یہ ہے کہ ماضی میں بھی دشمن نے آپ لوگوں کو فقہ اور مسلک کی بنیاد پر لڑانے کی سازش کی اور مستقبل قریب میں بھی یہ سازشیں بہت بڑے پیمانے پر گرم ہونے والی ہیں۔

اس لیے اس جماعت اور امیدوار کو ووٹ دیں جو اس فرقہ وارانہ تفریق سے پاک ہو اور اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کررہی ہو، جو جماعت یا امیدوار اس تفریق کو ہوا دے، اسے ووٹ دینے سے گریز کریں کیونکہ وہ دوست کے روپ میں آپ کا دشمن ہے۔

پانچویں گزارش یہ ہے کہ آپ لوگوں کا الیکشن کمشنر نہایت کمزور ہے اور پہلے سے حکومت کی مٹھی میں بند نظر آتا ہے۔

دوسری طرف دھاندلی کے سارے ماہرین پورے پاکستان سے جمع ہوکر آپ کے علاقے پر حملہ آور ہیں، ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں کہ آپ کے علاقے میں بھی وہی کام کئے جائیں جو 2018 میں باقی پاکستان کے انتخابات میں ہوئے تھے۔

اس لیے صرف ووٹ ڈالنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ لوگوں نے ووٹ جس کو ڈالا ہو، اسی کے حق میں گنا بھی جائے۔

چھٹی اور سب سے اہم التجا یہ کہ اپنا ووٹ بغیر کسی ذاتی لالچ کے اپنے ضمیر کے مطابق کاسٹ کریں، جس پارٹی کو اور جس امیدوار کو چاہیں ووٹ دیں لیکن جو لوگ لوٹے بن کر انتخابات کی خاطر پارٹی تبدیل کرچکے ہیں، ان کو عبرتناک شکست دیں۔

یہ بے وفا اور ضمیر فروش لوگ آپ جیسے وفاشعار لوگوں کے دامن پر دھبہ ہیں۔یہ کلیہ ذہن میں رکھیں کہ جو امیدوار اپنی پارٹی اور لیڈر کا وفادار نہیں ، وہ آپ لوگوں کا بھی وفادار نہیں ہوسکتا، جو شخص مشکل وقت میں اپنے نظریے اور قیادت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکتا، وہ مشکل وقت میں آپ کے ساتھ بھی کھڑا نہیں ہوگا ۔

لہٰذا جس جس نے بھی پارٹی تبدیل کی ہے اور جس بھی پارٹی میں گیا ہے، اسے عبرتناک شکست سے دوچار کریں تاکہ آئندہ کے لیے کوئی اس بے شرمی اور بے ضمیری کا ارتکاب نہ کرسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔