18 نومبر ، 2020
مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسیوں نے پاکستان کی خاطر قربانی اور محبت کی حد کردی، تاہم آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے باسیوں کی محبت بھی اپنی مثال آپ ہے لیکن ہم اہل پاکستان نے آج تک ان کو باقی صوبوں کی طرح آئینی اور مالی حقوق نہیں دیے۔
آزاد جموں و کشمیر کو برائے نام صدر اور وزیراعظم دے رکھے ہیں لیکن انہیں وفاقی سیکرٹری جتنے اختیارات بھی نہیں حاصل ہیں، یہی حالت گلگت بلتستان کی ہے، وہاں کے لوگ صوبہ مانگ رہے تھے لیکن ستر سال سے ہمیں یہی رٹ ازبر کرائی گئی کہ اس سے جموں وکشمیر سے متعلق ہمارا کیس کمزور ہوجائے گا۔
حالانکہ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم روزِ اول سے آزاد جموں وکشمیر کو ہر لحاظ سے پاکستان کا مکمل حصہ بناتے، ان کو ہر طرح کی مالی ، سیاسی اور انتظامی خود مختاری دیتے تاکہ انڈیا کے زیر قبضہ کشمیریوں کو ترغیب ملتی لیکن ستر سال کی مجرمانہ غفلت کے بعد اب جبکہ مودی نے مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرلیا تو ہمیں گلگت بلتستان کو صوبے کا اسٹیٹس دینے کا خیال آیا۔
پیپلز پارٹی نے گزشتہ دورِ حکومت میں گلگت بلتستان کو کچھ آئینی حقوق تو دے دیے لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کو صوبہ بنانے نہیں دیا، سرتاج عزیز کمیٹی نے بھی اپنی سفارشات میں پرویژنل صوبے کی تجویز دی لیکن ایک بار پھر کشمیر کاز کو نقصان کی آڑ لے کر اس پر عمل کرنے نہیں دیا گیا۔
اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج بھی گلگت بلتستان کا چیف سیکرٹری اور آئی جی ہمیشہ باہر سے اور اکثر اوقات خیبر پختونخوا سے آتا ہے،گلگت بلتستان کی اقتصادی اور اسٹرٹیجک اہمیت سی پیک کے تناظر میں مزید بڑھ گئی ہے لیکن افسوس کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور اس وقت کی فوجی قیادت نے سی پیک میں گلگت بلتستان کو بلوچستان کی طرح اس کا جائز حصہ نہیں دیا۔
توقع کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس زیادتی کا ازالہ کرے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا، تاہم گلگت بلتستان میں جب انتخابات کا وقت آیا تو عمران خان کو بھی گلگت بلتستان یاد آیا، چنانچہ بغیر کسی ہوم ورک کے، کشمیری اور ملکی قیادت کے ساتھ مناسب صلاح مشورے کے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کیا گیا جس کی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے مخالفت کی۔
دوسری طرف گلگت بلتستان کو فتح کرنے کے لیے علی امین گنڈاپور وغیرہ کو ٹاسک سونپ دیا گیا اور وہاں کے انتخابات میں 2018کے عام انتخابات جیسے حربے استعمال ہونے لگے۔
ہم نے بہت التجائیں کیں اور مطالبہ کرتے رہے کہ گلگت بلتستان کی حساسیت کے پیش نظر یہاں پر روایتی حربے استعمال نہ کیے جائیں لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، پہلے وہاں مصنوعی طور پر پی ٹی آئی بنوائی گئی، اس میں الیکٹیبلز شامل کروائے گئے اور پھر ان کو جتوایا گیا، الیکشن کمیشن کو اپاہج بنایا گیا، پھر گنتی کے دوران وہ عمل ایک اور شکل میں دہرایا گیا جو 2018کے الیکشن میں استعمال کیا گیا تھا۔
ویسے تو پاکستان میں ہر سیاسی حکومت بے اختیار ہوتی ہے لیکن گلگت بلتستان کی حکومت 6 حقیقتاً کوئی خاص چیز نہیں، یوں وہاں کی حکومت ہاتھ آنے سے کوئی بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ حکومت جس کی بھی ہو عملاً گلگت بلتستان کو وفاق سے ایک سیکرٹری کنٹرول کررہا ہوتا ہے لیکن اب کی بار یہ الیکشن پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کاز کے حوالے سے نہایت اہم ہوگیا تھا اور اس لیے ہم بار بار ہاتھ جوڑ کر ملک چلانے والوں سے التجائیں کررہے تھے کہ وہ گلگت بلتستان کے الیکشن کو الیکشن رہنے دیں ، سلیکشن نہ بنائیں۔
وجوہات اس کی یہ تھیں کہ اس وقت سی پیک کے تناظر میں پاکستان اور چین کے دشمنوں کی نظریں گلگت بلتستان پر لگی ہوئی ہیں اور پاکستانی ریاست کے لیے وہاں کے کسی بھی فرد یا طبقے کو ناراض کرنا ملکی مفاد میں نہیں، پہلے سے کچھ لوگ پاکستانی ریاست کے رویے کے خلاف نعرہ زن تھے، یہ آوازیں حقیقی نمائندے ہی دبا سکتے تھے لیکن جب وہاں پر بھی مصنوعی قیادت مسلط کی جائے گی توپھر وہاں بھی پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں وجود میں آسکتی ہیں۔
دوسری وجہ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ فساد کا خطرہ ہے، بدقسمتی سے ماضی میں دشمن کی سازشوں سے وہاں مسلکی بنیادوں پر لوگوں کو لڑایا گیا، اب بھی انڈیا جیسی طاقتیں ہمہ وقت اس آگ کو بھڑکانے میں لگی رہتی ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمٰن کی باقی کارکردگی جیسی بھی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کو انہوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ قابو کرلیا تھا، پیپلز پارٹی نے بھی قومی جماعت ہونے کے ناطے اس مسئلے کو قابو کرنے میں مثبت کردار ادا کیا، اب علی امین گنڈا پور اور زلفی بخاری جیسےلوگوں کے نامزد نمائندے کیا اس سنجیدہ مسئلے کو قابو کرسکیں گے ؟
تیسری وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا معاملہ جموں و کشمیر سے جڑا ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے کی حیثیت گلگت بلتستان کے اکثریتی لوگوں کا مطالبہ ہے، میں بھی ماضی میں اس کے لیے آواز اٹھاتا رہا لیکن جب سے نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا، تب سے میں نے یہ مطالبہ دہرانا وقتی طور پر چھوڑ دیا تھا۔
وجہ اس کی یہ تھی کہ حریت کانفرنس کے رہنما اس موقع پر اس اقدام کے حق میں نہیں تھے اور ان کا یہ خیال ہے کہ اس وقت اس اقدام سے ان کے کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس وقت مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے لوگ شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں، ان کو اعتماد میں لیے اور پوری پاکستانی قیادت کو آن بورڈ لیے بغیر ، حکومتِ پاکستان کے یکطرفہ اقدام سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی؟
اب اگر گلگت بلتستان میں جینوئن قیادت برسراقتدار آتی تو مشاورت سے پرویژنل صوبے کو بنانے کا عمل آسان ہوتا لیکن ایسے عالم میں جبکہ وفاق میں بھی ایک متنازعہ حکومت ہے تو گلگت بلتستان میں ایک متنازعہ حکومت یہ کام کسی بھی صورت خوش اسلوبی سے نہیں کرسکتی کیونکہ اب کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مین اسٹریم جماعتیں بھی تعاون نہیں کریں گی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی سیاست یہ دونوں جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی جیت چکی، بلاول بھٹو نے جس طرح گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈال دیے اور پھر ان کی تقلید میں جس طرح مریم نواز وہاں گئیں اور جلسوں سے خطاب کیا، اس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے لوگوں کا پاکستان کے ساتھ اپنائیت کا احساس اجاگر ہوا اور دوسری طرف ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے ایشوز کو پاکستانی میڈیا میں جگہ مل گئی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔