Time 20 نومبر ، 2020
پاکستان

بلوچستان میں 12 لاکھ سے زائد بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم

بچے کسی بھی ملک اور قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، ان کی صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

لیکن بلوچستان میں بہت سے بچوں کو ترقی کے مواقع ہی میسر نہیں،کئی بچے غربت کے باعث کم عمری میں ہی اپنےگھرانوں کے معاشی بوجھ تلے دب کر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔

بلوچستان ملک کا پسماندہ صوبہ، ویسے تو صوبے کی پسماندگی زندگی کے ہر شعبے سے عیاں ہے لیکن اگر بات کی جائے مستقبل کے معماروں کی تو صوبے کی پسماندگی کا شکار اور اس سے سب سے زیادہ متاثر طبقہ بچے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اب بھی 12 لاکھ سے زائد بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ان میں سے 5 سے 15 سال تک کے زیادہ تر بچے اپنے گھرانوں کی معاشی ضروریات کے لیےکچرہ چننے، مکینک شاپس اور دیگر مزدوری کےکام کرنے پر مجبور ہیں۔

تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ایک بچے کا کہنا تھا کہ میں 6  سالوں سے یہاں کام کر رہا ہوں، دل تو چاہتا ہے کہ اسکول جاؤں اور تعلیم حاصل کروں لیکن کیا کریں غریبی ہے کمائی کر کے گھر کا خرچ چلا رہا ہوں، غریب ہوں مجبوری ہے روز کا 200، 300 روپے کماتا ہوں۔

ایسا نہیں ہے کہ اسکولوں سے باہر بچوں کو تعلیم کا شوق نہیں مگر پھر وہی اپنے گھرانوں کے معاشی حالات ان کے شوق اور خواہش پر حاوی ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ دیہاڑی نہیں لگائیں گے تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔

دوسری جانب حکومت کی طرف سے بچوں کےحقوق کے تحفظ کے دعوے محض دعوے ہیں جس کا اندازہ زمینی صورتحال دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں زیادہ تر بچے انڈر 14 ہیں اور چائلڈ لیبر میں یہ  زیادہ تعداد میں کام کرتے ہیں۔

یہ محض کہنے کی بات نہیں کہ بچے ملک و قوم کا سرمایہ ہیں، آج ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائےگا تو کل وہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔

مزید خبریں :