بلاگ
Time 27 نومبر ، 2020

بھارت کے خلاف اقوامِ متحدہ کو پانچواں ڈوزیئر

فائل:فوٹو

اقوام متحدہ کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر پیش کیا، ان کے خیال میں پاکستان کی طرف سے جو ثبوت پیش کیے گئے ہیں انہیں کوئی بھی مسترد نہیں کر سکتا۔ 

اسی یقین کے ساتھ اکتوبر 2015 میں اس وقت کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کو 3 ڈوزیئرز دئیے تھے، جس میں بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں بھارتی مداخلت کے شواہد شامل تھے، مگر وہ اقوام متحدہ کی فائلوں میں کہیں دفن ہو گئے۔ 

دوہزار سترہ کے آغاز میں پھر ایک ڈوزیئر اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا جس میں سی پیک کی جاسوسی کرنے والی پاکستانی پانیوں میں بھارتی آبدوز کے ویڈیو ثبوت ،کل بھوشن یادو کا اعترافی بیان اور بہت سی دوسری دستاویزات شامل تھیں مگر اقوام متحدہ نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو پہلے تین ڈوزیئر کے ساتھ کر چکا تھا۔

دیکھتے ہیں اب کی بار اقوام متحدہ کی الماریاں پاکستان کے بھارتی دہشت گردی کے خلاف پانچویں ڈوزیئر کے ساتھ کیا برتاؤ کرتی ہیں۔

کچھ ڈوزیئر بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کو بھی دیے، دوسال پہلے پلوامہ واقعہ سے متعلق بھارت نےڈوزیئر پاکستان کے سپرد کیا تھا مگر اس میں صرف الزامات تھے کوئی ثبوت نہیں تھا۔

ڈوزیئر میں جن 22 مقامات پر دہشت گردی کے کیمپوں کی نشان دہی کی گئی تھی، اُن میں سے ایک مقام پر بھی کوئی کیمپ موجودنہیں تھا، اس ڈوزیئر میں مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور عبدالروف کے نام بھی شامل تھے، مگر ملوث ہونے کا ثبوت نہیں دیا گیا تھا۔ 

پاکستان نے بھارتی ڈوزیئر کے جواب میں ایک جامع ڈوزیئر بھارت کے حوالے کیا تھاجس میں ثبوت بھی تھے مگر بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا، شایداسی ڈوزیئر کو بہتر بنا کر اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری کو دیا گیا ہے، وزیر اعظم کو پانچوں ڈوزئیر منگوا کر دیکھ لینے چاہئیں کہ ان میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں، وزارتِ خارجہ کے افسران انہیں یونہی خوش تو نہیں کر رہے۔

خیر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر بھارت کا چہرہ واضح طور پر نظر آرہا ہے لیکن تازہ اطلاعات کےمطابق اب معاملہ صرف پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی تک محدود نہیں رہا۔ 

کچھ ایسے ثبوت ملے جن سے پتہ چلا ہے کہ دنیا کی کئی عالمی دہشت گرد تنظیموں کو بھارت مالی امداد کے ساتھ اسلحہ بھی فراہم کررہا ہے، عرب ممالک اور ایران کو اس کے ثبوت فراہم کیے جا چکے ہیں۔

خیر اب تو سعودی عرب کو پاکستان منانے کی کوشش کر رہا ہے، پاکستان میں کورونا کے تیزی سے بڑھنے کے باوجودپاکستانیوں کے ورک ویزے بحال کر دیے گئے ہیں، سات ہزار نئے ملازمین بھی مانگ لیے ہیں، دو ارب ڈالر کی واپسی کی خبر کی بھی تردید ہونے والی ہےمگر سعودیہ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگرپاکستان اُس کا دوست ہے تو پھر بھارت اُس کا دوست نہیں ہو سکتا۔ 

دوست کا دشمن کیسے دوست ہو سکتا ہے، ماضی میں ہم نے کبھی سعودی عرب کو اس بات کا احساس نہیں دلایا تھا کیونکہ ہمارے ماضی کے حکمران بھارت کو دشمن سمجھتے ہی نہیں تھے مگر عمران خان کے نزدیک ناموس ِوطن سے زیادہ اور کوئی شے نہیں۔ 

سو اس نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مراسم بڑھائے کیونکہ ان دونوں ممالک نے بھارت کے خلاف پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا، جنرل اسمبلی سے خطاب میں مہاتیر محمد نے بھارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجودجموں و کشمیر پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا گیا۔ 

ملائشیا کےکشمیر کے معاملے میں پاکستان کا ساتھ دینے پر بھارت نے ملائشیا سے پام آئل کی خریداری بند کردی مگر ملائشیا اپنی بات پر ڈٹا رہا، اسی طرح ترک صدر رجب طیب ایردوان دو مرتبہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اٹھا چکے ہیں۔ 

انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد مسئلہ اور بھی سنگین ہوگیا ہے۔

بھارت اور ترکی کے تعلقات جو کسی زمانے میں بہت اچھے تھے، وہ اب اتنے برے ہو چکے ہیں کہ جب بالی وڈ اداکار عامر خان کی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی اہلیہ سے ملاقات کی تصویریں آ ئیں تو بھارت میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ 

ترکی سے ہندوؤں کو کیاگلہ ہے، یہی ناکہ وہ پاکستان کا دوست ہے، ویسے موجودہ حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت شاندار ہے، بھارتی عزائم کو ہر جگہ شکست ہوئی ہے، افغانستان کے معاملات سے بھارت تقریباً باہر چکا ہے، انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ لا تنظیم (آئی ڈی ایل او) کا بھی پاکستان کو تین سال کے لیے متفقہ طور پر صدر منتخب کرلیا گیا ہے، پاکستان کو یہ اعزاز امریکا کی 3سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد ملا ہے۔

جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے تو کچھ ممالک جس قدر بھی عمران خان پر دباؤبڑھا دیں۔کوئی فرق نہیں پڑتا، اسرائیل کو عمران خان نے نہیں ،پاکستانی قوم نے تسلیم کرناہے جو ممکن نہیں لگتا، جہاں تک یو اے ای اور اسرائیل کے مراسم کا تعلق ہے تو کہا جارہا ہے کہ اس میں بھی اہم ترین کردار بھارت نے ادا کیا ہے۔ 

ہر جگہ مسئلہ سی پیک کا بنا ہوا ہے، یہ صرف بھارت کےلیے پریشان کن نہیں ،یو اے ای کے لئےبھی تباہ کن ہے،گوادر کی بندرگاہ جب عروج پر پہنچ جائے گی تو دبئی کے لیے مسائل ہونگے ، بحری جہازوں کو دبئی جانے کیلیے مین سمندر ی راستہ چھوڑ کر اندر جانا پڑتا ہے جب کہ گوادر مین سمندری راستے پر ہے ،اس کی موجودگی میں جہاز دبئی کی طرف نہیں جائیں گے۔ یعنی معاشی طور پرطاقتور پاکستان اور ایران اسرائیل کیلئے ہی نہیں اور بھی بہت سے ممالک کےلئے ناقابل ِ قبول ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔