Time 09 دسمبر ، 2020
بلاگ

گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کیوں اور کیسے؟

فوٹو: فائل

ایک بات طے ہو گئی کہ 2018میں نئے نظام کا جو تجربہ کیا گیا، وہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگیا، ریاستی اداروں نے اپنی حدود سے آگے بڑھ کر اُس کے ساتھ تعاون کیا، میڈیا نے مثبت رپورٹنگ کی نئی تاریخ رقم کردی لیکن اُس کے باوجود یہ نظام چلنے کا نام نہیں لے رہا۔

اِن حالات میں ایک بار پھر تبدیلی کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں لیکن سنجیدہ حلقے تبدیلی سے زیادہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ پر زور دے رہے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے، اِس وقت جن مسائل کا سامنا ہے اُن میں بعض تو حکومت سے متعلق ہیں لیکن زیادہ تر کا تعلق ریاست سے ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت کو خطرات کم لیکن ریاست کو زیادہ درپیش ہیں اور اِس لیے ریاستی اداروں کے مابین گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت زیادہ محسوس کی جارہی ہے، گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور ری کنسیلیشن کی ضرورت جس تناظر میں محسوس کی جار ہی، اُس کے چیدہ چیدہ نکات حسبِ ذیل ہیں:

1: حکومت متنازعہ ہے، سوائے پی ٹی آئی کے باقی ہر جماعت نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔

2: سینیٹ ہو یا قومی اسمبلی یا پھر صوبائی اسمبلیاں، ویسے تو اپوزیشن کے لوگ بھی اِس میں بیٹھے ہیں لیکن اُن کو کوئی جینوئن منتخب ادارہ سمجھتا ہے اور نہ اُن کے پاس کوئی اختیار ہے۔

3: ملک معاشی طور پر تباہی سے دوچار ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ جی ڈی پی گروتھ منفی کی طرف جارہی ہے، سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اقتصادی حوالوں سے پاکستان کے لیے سلامتی کا خطرہ بن سکتا ہے۔ 

4: فوج کے ادارے سے متعلق پہلی مرتبہ سوالات اُٹھ رہے ہیں، ماضی میں صرف بلوچستان، پختونخوا اور سندھ سے تنقید ہوتی تھی، آج پنجاب کا لیڈر نواز شریف سب سے سخت لہجہ استعمال کررہا ہے۔

5: ماضی میں حکومتیں اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار کرتی تھیں لیکن موجودہ حکومت کو اپنی بقا اِس میں نظر آتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑا دے، اپوزیشن پر جب غداری کے الزامات لگتے ہیں تو جواب میں اُن کی طرف سے بھی بعض اوقات ایسے بیانات آجاتے ہیں جو قومی مفاد کے لئے نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔

6: بلوچستان، قبائلی اضلاع اور گلگت بلتستان کی محرومیاں اپنی جگہ برقرار ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کا معاملہ ریاست اور عوام کے مابین خلیج بڑھا رہا ہے۔

7: الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد عدلیہ پر جس طرح دباؤ ڈالا گیا یا پھر ثاقب نثار اور ارشد ملک (اللہ اُن کی مغفرت کرے) جیسے ججز نے جو کردار ادا کیا، اس کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بہت مجروح ہو گیا ہے، اِس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ قومی احتساب بیورو، احتساب کا نہیں بلکہ سیاسی انتقام اور سیاسی بلیک میلنگ کا ادارہ ہے، خود چیئرمین نیب بھی بلیک میل ہورہے ہیں اور جب نیب سے متعلق اصل حقائق سامنے آئیں گے تو قیامت صغریٰ برپا ہوگی۔

8: مقبوضہ کشمیر کو مودی نے ہڑپ کر لیا لیکن سفارتی محاذ پر پاکستان کی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ انڈیا کو کسی صورت فیصلہ واپس لینے پر مجبور نہیں کرپا رہا، دوسرا آپشن جنگ کا ہے لیکن ظاہر ہے اِس وقت پاکستان جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہ خطرہ موجود ہے کہ کشمیری پاکستان سے مایوس ہو جائیں جبکہ دوسری طرف ملک کے اندر سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے اپوزیشن، حکومت اور اُس کے سہولت کاروں پر کشمیر فروشی کا الزام لگ رہا ہے۔

9: اقتصادی اور سفارتی میدانوں میں ماضی کے عرب دوست ہمارا بڑا سہارا ہوا کرتے تھے لیکن عمران خان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ ہم سے دور ہو گئے ہیں، ہم ایران کے اعتماد کو بحال کر نہیں سکے تھے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کا اعتماد کھو بیٹھے، یہ ایک نیا چیلنج ہے۔

10: مڈل ایسٹ یا مشرق وسطیٰ کی تبدیلیاں بھی ہمارے لیے نیا چیلنج بن گئی ہیں، سعودی عرب اور یو اے ای اب ایران سے زیادہ ترکی کو خطرہ سمجھنے لگے ہیں، اِسی تناظرمیں اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یو اے ای، اسرائیل اور انڈیا اسٹرٹیجک الائنس کرنے جارہے ہیں، اِسی طرح پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ اِن ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پل صراط پر سفر ہے، اور اگر عمران خان کی حکومت پر چھوڑا جائے گا تو وہ روایتی افراط و تفریط سے کام لے کر معاملات کو مزید تباہ کردے گی۔

یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا اِس وقت ملک کو سامنا ہے اور اگر اِن کے مقابلے کے لیے قوم کی اجتماعی ذہانت کو بروئے کار نہ لایا گیا تو اِس ملک کو خانہ جنگی سے صرف اللہ کا کرم ہی بچا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں بدترین غربت اور بےروزگاری کے ساتھ ساتھ بدترین گھٹن بھی جنم لے چکی ہے جو کسی وقت بھی ایک لاوے کی شکل میں پھٹ سکتی ہے اور اِس تباہی کا راستہ روکنے کا اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شریک ہوں۔ 

سوال یہ ہے کہ اس ڈائیلاگ کا اہتمام کون کرے؟ کیا حکومت کرے؟ نہیں، حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ یہ تاریخ کی متنازعہ ترین حکومت ہے، تو پھر کیا فوج کرے لیکن فوج کے لیے بھی مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہ صرف ایک ادارہ ہے بلکہ اہم فریق بھی سمجھا جاتا ہے، تو پھر کیا عدلیہ کرے؟ میرے نزدیک عدلیہ بھی چونکہ ریاستی ادارہ ہے اور ڈائیلاگ میں فریق بھی، اس لیے شاید عدلیہ کے لئے بھی مناسب نہیں۔

میرے نزدیک مناسب ترین فورم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ہو سکتا ہے یا پھر ایک کونسل آف ایلڈرز (Elders)  تشکیل دی جانی چاہیے جس میں جنرل وحید کاکڑ جیسے ریٹائرڈ فوجی، ایل ایف او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز، اچھے کردار کے حامل چند بزرگ سیاستدان اور اعلیٰ پائے کے پروفیسر وغیرہ شامل ہوں، سوال یہ ہے کہ ڈائیلاگ میں کون شریک ہوں؟

ظاہر ہے اِس ڈائیلاگ میں حکومت، اپوزیشن، فوج اور عدلیہ کو شریک ہونا چاہیے،  یہ ڈائیلاگ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے دائرے کے اندر ہونا چاہیے، اس کے چار اہداف ہونے چاہئیں:

1: وجودہ سیاسی بحران کا فوری حل، انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کے لیے وقت کا تعین۔

2: ہر ادارے کے کردار کو آئین میں متعین کردہ کردار تک محدود کرنے کے رولزم آف گیم بنانا۔ 

3: احتساب کا ایسا نظام تشکیل دینا جو سب کا بلاامتیاز محاسبہ کرے۔

4: ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن کا قیام، اِس کے طریق کار اور مینڈیٹ کا تعین۔

ظاہر ہے یہ تجویز حتمی ہے، نہ اس کا اہتمام کرنے والا فورم اور نہ اس کا مینڈیٹ، یہ مجھ جیسے سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کی خام سی رائے ہے، ان میں ہر حوالے سے کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس ریاست کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے اس ڈائیلاگ کا اہتمام ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔