بلاگ
Time 12 دسمبر ، 2020

بندہ بہت ہوشیار ہے

فوٹو: فائل

2011 میں جب اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں میاں نواز شریف اور آصف زرداری کا متبادل بنانےکا فیصلہ کیا تو آغاز لاہور کے مینار پاکستان اور پنڈی کےمشہور زمانہ جلسوں سے کیا گیا۔ 

ملک کے بڑے بڑے اہل سرمایہ کو کہا گیا کہ وہ نوٹ نچھاور کریں، میڈیا کو بھی ہدایات جاری ہوئیں کہ انہیں مسیحا ثابت کریں، لیکن آپ حیران ہوں گے کہ آصف علی زرداری صاحب بھی اپنی مرضی سے پیسے اور دیگر حوالوں سے پنجاب میں ان کے جلسوں کو سپورٹ کررہے تھے ۔ 

میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے اپنے دوستوں سے ان جلسوں کے لیے پیسے دلوائے اور سرکاری سپورٹ بھی فراہم کی، زرداری صاحب کا تجزیہ تھا کہ وہ بھی چونکہ دائیں بازو کے لیڈر ہیں اور مسلم لیگ (ن) بھی دائیں بازو کی جماعت ہے ، اس لیے یہاں وہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کاٹیں گے لیکن وقت آنے پر انہوں نے پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کا نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کا جنازہ نکال دیا۔ 

یہ ہے زرداری صاحب کی ہوشیاری اور سیاسی بصیرت، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اصل ہوشیار زرداری نہیں بلکہ بندہ زرداری سےکئی گنا زیادہ چالاک اور ہوشیار ہے۔

اسی طرح انہوں نے میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کو لڑانے کی مہم شروع کررکھی تھی، عقلمندی کا تقاضا یہ تھا کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دس سال کی بداعتمادی کو ختم کرتے لیکن وہ ان کی سازش کا شکار ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنائو بڑھاتے رہے، جس کی وجہ سے وہ اسٹیبلشمنٹ کی پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہو گئے، یوں نوازشریف نہیں بلکہ بندہ بہت چالاک اورہوشیار ہے۔

ورلڈ کپ پوری ٹیم نے جیتا لیکن انہوں نے جیت صرف اپنے نام کردی، پھر ورلڈ کپ کو بہت ہوشیاری کے ساتھ اسپتال کے لیے اور پھر ہسپتال کو سیاست کے لیے استعمال کیا، نواز شریف اور زرداری کے برعکس انہوں نے اپنا پرس رکھا اور نہ اپنا بینک بیلنس، دورجوانی سے اپنے اردگرد دولت مند رکھے جو ان کی ہر خواہش پوری کرتے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ بندہ بڑا چالاک ہوشیار ہے۔

انہیں اندازہ تھا کہ پاکستان میں اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے، چنانچہ پہلے دن سے ان حلقوں سے بنا کے رکھی اورجب پرویز مشرف نے ٹیک اوورکیا تو انہوں نے نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی کابینہ میں اپنے بندے بھی شامل کروائے۔

تب ہر دوسرے روز ان کےگھر ملاقات کے لیے حاضر ہوتے، ان سے ملاقاتیں کرکے الیکٹ ایبلز کی ڈیمانڈ کرتے رہے، ریفرنڈم میں ان کے لیے ووٹ بھی مانگے لیکن جب اقتدار کا ہما ان کی بجائے چوہدریوں کے سر بٹھانے کا فیصلہ ہوا تو وہ ناراض ہوئے تاہم مشتعل پھر بھی نہیں ہوئے کیونکہ بندہ بہت چالاک اور ہوشیار ہے۔

وہ مشرف کے مخالف نظر آرہے تھے لیکن ڈیپ اسٹیٹ کے ساتھ معاملہ درست رکھا۔

مشرف کے خلاف بیانات پر لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن درون خانہ وہ ڈیپ اسٹیٹ ہی کے کارندے تھے، تب جب میں کسی کے سامنے اس رائے کااظہار کرتاکہ وہ ڈیپ اسٹیٹ کے بندے ہیں تو لوگ مجھے احمق اور بے وقوف سمجھتے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ سادہ نہیں بلکہ بندہ بہت چالاک اور ہوشیار ہے۔

پیپلزپارٹی کی حکومت میں وہ عوام کے سامنے اسٹیٹس کو کو ختم کرنے کا نعرہ لگارہے تھے لیکن اس وقت کے اپنے سرپرستوں کے حکم پر انہوں نے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کواپنا نمبرٹو بنایا اور یہ سوال نہیں اٹھایا کہ یہ تو روایتی سیاستدان ہیں، ان کے ایک طرف علیم خان، دوسری طرف جہانگیر ترین، تیسری طرف اعظم سواتی اور چوتھی طرف شاہ محمودقریشی بیٹھے رہے لیکن پھر بھی نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا اور ان کو اس غلط فہمی کا شکار رکھا کہ اقتدار میں آکر وہ اسٹیٹس کو توڑیں گے اورکرپشن ختم کریں گے، نوجوان ان کو انقلاب کا نقیب سمجھتے رہےکیونکہ بندہ سادہ نہیں بلکہ کمال کی حد تک چالاک اور ہوشیار ہے۔

مولانا طارق جمیل اور پروفیسر رفیق اختر وغیرہ کے سامنے وہ ایک قسم کے انسان ہیں، اعظم خان ،زلفی ، زیدی، واوڈا، صلو اور گل وغیرہ کے سامنے وہ دوسری طرح کے انسان ہیں۔ اسد عمر،شاہ محمود اوردیگر وزرا کے سامنے وہ ایک اور طرح کے انسان ہیں جبکہ پبلک کے سامنے ایک اور طرح کے، جاویدہاشمی جیسا انقلابی ہویا جہانگیر ترین جیسا رائٹ ہینڈ، وہ معمولی گستاخی کریں تو ان کا بلڈ پریشرہائی ہوجاتا ہے اور ان کو پرے پھینکنے میں دیر نہیں لگاتے۔ 

اس کے برعکس جنرل راحیل شریف نے انہیں استعمال کیا ‘پھر انہیں آرام سے گھر جانے کاکہا لیکن ان کا بلڈپریشرہائی نہیں ہوا، اپنی ایکسٹینشین کے لیے ان سے لاک ڈاؤن کرایا اور پھر آرام سے الیکشن کا انتظارکرنے کا کہا تو بھی وہ برہم نہیں ہوئےکیونکہ وہ جانتے تھےکہ کس کے سامنے اپنے بلڈپریشر کو ہائی رکھنا ہے اور کس کے سامنے لو؟

انہیں نواز شریف اور زرداری کی شکل پسند ہے اور نہ ان کا کوئی کام لیکن ان دونوں کی ایک پسند یعنی جسٹس جاوید اقبال کو وہ پیار کرنے لگے ہیں، اس پسند کا کچھ مواد قبضے میں لے کر جتنا انہوں نے جاوید اقبال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اتنا ان کے اصل مالک بھی نہیں کرسکے کیونکہ بندہ بڑاچالاک اور ہوشیار ہے ۔

جنرل قمر جاوید باوجوہ ، عمران خان نہیں بلکہ میاں نواز شریف کی چوائس تھے، وہ میاں نواز شریف کے ہر نقش کہن کو مٹانا چاہتے ہیں لیکن میاں صاحب کی اس ایک چوائس کو ملازمت میں توسیع دے ڈالی، توسیع دیتے وقت نوٹیفکیشن پر نوٹیفکیشن نکال کر اس معاملے پر انہیں بھی اور عدلیہ کو بھی آزمائش میں ڈالا کیونکہ بندہ حد سے زیادہ چالاک اور ہوشیار ہے۔

یہ بندہ اتنا سمجھدار اور اتنا ہوشیار ہے کہ باری باری سب کو بے وقوف بنا یا لیکن وہ بے وقوف خود کو بے وقوف سمجھنے کی بجائے ان کو سادہ سمجھ رہے تھے اور بعض بے وقوف تو آج بھی ان کو سیدھا سادہ سمجھ رہے ہیں، ہے نا کمال کا چالاک اور سمجھدار؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔