23 دسمبر ، 2020
آصف علی زرداری کا شمار مولانا فضل الرحمٰن کی طرح انتہائی عقلمند سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ بطور حکمران ان کا رویہ نسبتاً زیادہ جمہوری رہا اور اپنے مخالفین یا میڈیا کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم بھی اُن کا بڑا سیاسی کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔
چین کے ساتھ سی پیک کی بنیاد رکھنے اور امریکہ کو ناراض کرکے چین اور روس کی طرف خارجہ پالیسی کا رخ موڑنے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ بطور حکمران وہ میاں نواز شریف یا عمران خان کی نسبت اسٹیبلشمنٹ سے بھی اچھے انداز میں کھیلتے رہے اور اِس تناظر میں ایک وقت میں یہ نعرہ فروغ پاگیا کہ ایک زرداری سب پر بھاری لیکن پتا نہیں اُن کی عقل کو کیسز کا خوف لاحق ہو گیا ہے، اِس پر سندھ کی حکمرانی کی محبت غالب آگئی ہے یا پھر وہ نواز شریف کی بےوفائی کی وجہ سے انتقام کے جذبات کا شکار ہو گئے کہ کچھ عرصہ سے عجیب و غریب سیاست کرنے لگے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھوں پیپلز پارٹی کو تباہ کرتے جارہے ہیں اور بلاول بھٹو کی مستقبل کی سیاست کے امکانات بھی محدود کرتے جاتے ہیں۔ جو اہم فیصلے اور طاقتور حلقوں کے ساتھ ڈیلنگ کے معاملات ہوتے ہیں، وہ صرف اُن کو، اُن کی بہن فریال تالپور کو، بلاول کو یا پھر زیادہ سے زیادہ فاروق نائیک کے علم میں ہوتے ہیں اور باقی پارٹی قائدین کو اُن کی ہاں میں ہاں ملانا پڑتی ہے۔
اب یہ کہاں کی عقلمندی تھی کہ 2011اور 2012میں زرداری صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پنجاب میں پی ٹی آئی کے جلسوں کو اِس سوچ کے ساتھ کامیاب کرارہے تھے کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور ووٹر کاٹے گی جس کا پیپلزپارٹی کو فائدہ ہوگا۔
ویسے تو عمران خان صاحب کے یوٹرن مشہور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زرداری صاحب کے یوٹرن بھی کچھ کم نہیں۔ مرکز میں حکومت نواز شریف کی تھی اور سندھ میں وہ اسٹیبلشمنٹ سے تنگ تھے تو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے دی لیکن پھر جب اینٹ کا جواب پتھر سے ملا تو وہ دوسری انتہا تک چلے گئے۔
قوم نے بلاول بھٹو سے توقعات وابستہ کرلیں اور بلاول نے بڑی حد تک اپنے آپ کو بےنظیر اور بھٹو کا جانشین ثابت کرنے کی بھی کوشش کی لیکن زرداری صاحب نے اپنے راستے پر لگا کر اُنہیں بھی بلاول بھٹو سے بلاول زرداری بنا ڈالا۔ زرداری صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بلوچستان اور پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات میں کھیل کھیلا۔
پھر اُن کی خوشنودی کی خاطر اور بلاول کی مزاحمت کے باوجود رضاربانی کی بجائے سینیٹ کی چیئرمین شپ سنجرانی صاحب کو دلوا دی۔ لاڈلا بننے کی خواہش میں اُنہوں نے جعلی اسمبلیوں میں بیٹھ کر دیگر جماعتوں کو بھی وہاں بیٹھنے پر مجبور کیا۔ پھر صدارتی انتخابات کے موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کو ناراض کرکے پی ٹی آئی کو اپنا صدر منتخب کرنے کا موقع دیا حالانکہ اگر زرداری صاحب اس وقت ایسا نہ کرتے تو پی ٹی آئی اپنا صدر منتخب نہیں کر سکتی تھی۔
ایک طرف بلاول صاحب عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے رہے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی اُس حکومت کے ساتھ ہر معاملے پر تعاون کرتی اور اپوزیشن کو متحد ہونے سے روکتی رہی۔
پہلے ایک سال کے دوران پیپلزپارٹی کی کوئی ادا اپوزیشن والی نہیں رہی لیکن اس کے باوجود انہیں معافی نہیں ملی۔ مولانا فضل الرحمٰن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی شہ پاکر دھرنا دینے اسلام آباد آئے تو پیپلز پارٹی نے بھی مسلم لیگ(ن) کی طرح بےوفائی کرکے اُس سے اپنے لئے ڈیل نکال لی۔
دوسری طرف سندھ میں اُن کے ساتھ چھیڑخانی شروع ہوئی جبکہ ڈیل کی باقی شقوں پر عمل درآمد کیلئے اُن سے اٹھارہویں ترمیم میں ترمیم جیسے مطالبات شروع ہوئے۔ چنانچہ زرداری صاحب نے ایک بار پھر بلاول بھٹو کو میدان میں اُتارا اور حقیقی اپوزیشن بننے کا تاثر دینے لگے۔
پیپلزپارٹی کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک اور سیاست سے غیرجمہوری قوتوں کے کردار کو ختم کرنے کی دستاویز پر دستخط ہوئے۔
ادھر سے میاں نواز شریف انقلابی بن گئے چنانچہ جمہوریت پسند حلقوں نے پی ڈی ایم سے بڑی توقعات وابستہ کر لیں لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ است۔ پی ڈی ایم کی ساخت، جس میں بلوچ اور پختون قوم پرست ایک طرف تھے تو پنجاب اور سندھ کی بڑی جماعتیں دوسری طرف تھیں جبکہ قیادت اسٹریٹ پاور کی حامل جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمٰن کے پاس تھی، نے مختصر وقت میں حکومت اور اُس کے سرپرستوں کو ہلاکے رکھ دیا۔
چنانچہ اُنہوں نے رابطے شروع کرکے دوبارہ دانہ ڈالنا شروع کئے لیکن پی ڈی ایم کے اجتماعی فیصلے کی رو سے باقی جماعتوں نے تو اِس فیصلے کا پاس رکھا لیکن پیپلز پارٹی نے خفیہ رابطوں سے استفادہ کرنا شروع کیا اور پھر لاڈلا بننے کے چکر میں کئی اقدامات اٹھانا شروع کئے۔ پہل بلاول صاحب نے بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں دھچکے والے بیان سے کی جس سے پی ڈی ایم کو بڑا دھچکا لگا اور بیانیے کے اختلاف کا تاثر جنم لینے لگا۔
اُس کے بعد پیپلز پارٹی یہ کوشش کرتی رہی کہ پی ڈی ایم استعفوں اور اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ نہ کرے لیکن جب باقی سب جماعتیں مصر رہیں تو پیپلز پارٹی نے استعفوں کی تاریخ لمبی رکھنے اور دھرنے کو مارچ میں تبدیل کرنے پر اصرار کیا۔ استعفوں کی اِن لمبی تاریخوں کی وجہ سے بھی پی ڈی ایم کے بارے میں شکوک جنم لینے لگے۔
اِس دوران پیپلز پارٹی نے مختلف ممبران کی اموات سے خالی ہونے والی نشستوں پر فوری ضمنی انتخابات کا مطالبہ کیا جسے الیکشن کمیشن نے فوری طور پر منظور کرلیا۔ حکومت کی طرف سے سینیٹ انتخابات کو قبل از وقت کرانے کی چال کے پیش نظر یہ باقی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ استعفے مقررہ تاریخ سے پہلے دئیے جائیں لیکن پیپلز پارٹی نے قوم کو ضمنی الیکشن کے پیچھے لگا دیا اور ظاہر ہے ہر بندہ سمجھتا ہے کہ اگر استعفوں کا حقیقی ارادہ ہوتا تو پھر پیپلز پارٹی چند حلقوں پر ضمنی انتخابات کا مطالبہ کیوں کرتی۔
پیپلز پارٹی نے اب ریلیوں کا جو شیڈول دیا ہے وہ بھی احتجاجی تحریک کم اور ضمنی انتخابات کی مہم زیادہ لگتی ہے ورنہ تو تھرپارکر میں ریلی کا کیا جواز بنتا ہے۔
یوں دن بدن یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر اپنے کیسز اور سندھ حکومت کی خاطر اپنے ہی بنائے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے غبارے سے ہوا نکال رہی ہے۔
یوں پیپلز پارٹی کو اس مخمصے کا سامنا ہے کہ اگر اس نے اپنے ہی بنائے ہوئے اتحاد کو توڑا یا بےاثر کردیا تو شاید اسے وقتی رعایتیں مل جائیں لیکن بہ ہر حال سندھ کے سوا باقی صوبوں سے اس کا مکمل جنازہ نکل جائے گا چنانچہ اب بلاول کے پاس دو راستے ہیں۔
ایک یہ کہ وہ پی ڈی ایم کی روح کے مطابق عوامی جذبات سے ہم آہنگ قائدانہ کردار ادا کرکے قومی سطح کے لیڈر اور بےنظیر بھٹو کے جانشین بن جائیں اور دوسرا راستہ یہ ہے اپنے والد کی طرح اپنی شہرت کو داغدار کرکے اندرون سندھ کے پیر پگاڑا ٹائپ سیاستدان بن جائیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔