31 جنوری ، 2021
کوئی شیشہ دکھائے تو برا کیا ماننا؟ لیکن ہمارے لچھن کچھ اتنے بگڑ گئے ہیں کہ شیشے میں اپنی تصویر دیکھ کر تیور بگڑنے لگتے ہیں۔ شفافیت کی عالمی تنظیم (Transparency International) ہر برس درجن بھر عالمی اداروں کے عمیق جائزوں کی بنیاد پر 180 ملکوں میں کرپشن کے اُتار چڑھائو کے تاثر کا جائزہ پیش کرتی ہے۔
یوں وہ کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے، اصلاح احوال کی راہ دکھاتی ہے۔ جہاں نظام جتنے کرپٹ اور حکمران جتنے بوسیدہ لیکن برعم خویش اکڑخاں، وہاں پشیمانی کی بجائے اتنی ہی بیہودہ تاویلیں گھڑی جاتی ہیں اور کرپشن کے پرنالے ہیں کہ پھیلتے جاتے ہیں۔
پاکستان میں پہلی بار ایک ایسی پارسا حکومت آئی جو آئی ہی اس بنیاد پر تھی کہ وہ ملک کو کرپشن کے ناسور سے پاک کر دے گی اور کرپٹ عناصر کا ایسا احتساب کرے گی کہ کوئی آئندہ کرپشن کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ خیر سے تیسرا برس ختم ہونے کو ہے، کرپشن ہے کہ بڑھتی چلی گئی اور پچھلے ریکارڈ ٹوٹتے چلے گئے ہیں۔
اس برس پاکستان کی عالمی کرپشن کی درجہ بندی میں نمبر 120سے بڑھ کر 124ہو گیا ہے اور 100نمبروں میں اس کے نمبر پچھلے برس کے 32نمبروں سے کم ہو کر 31رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ افغانستان میں بھی کچھ بہتری آئی ہے، لیکن ہمارے نظام کا انحطاط جاری ہے۔
اب تحریک انصاف کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج منہ چھپائے تو کیسے؟ وزیراعظم نے تو رپورٹ پڑھے بغیر ہی وضاحت کردی کہ 2020ء کی رپورٹ کے اعداد و شمار شریف حکومت کے سال 2018ء کے ہیں اور ان کے نابغے مجال ہے کہ شرمسار ہوں۔ ایک نے تو اپوزیشن کو رپورٹ کا اردو ترجمہ فراہم کرنے کی چرکی چھوڑ دی۔
بھلا ہو انصار عباسی کا کہ انہوں نے نہ صرف اس رپورٹ کا ایک جامعہ خلاصہ دی نیوز اور اس کا اردو ترجمہ جنگ میں شائع کردیا۔ اصل رپورٹ دیکھنے پہ پتہ پڑا کہ صرف ایک ذریعہ (افریقی ڈویلپمنٹ بینک کنڑی پالیسی و ادارہ بحالی جائزہ) 2018ء کا تھا جو فقط ایک پہلو تک محدود تھا۔
باقی11عالمی اداروں کے جائزے 2020ء کے ہیں جبکہ ایک 2019ء کا ہے۔ درجن بھر عالمی اداروں کے جائزے جھٹلائے تو جھٹلائے کون؟ کبھی وقت تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس ماضی کے حکمرانوں کے منہ پر لہرا لہرا کر ان کی بدکرداری کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔
اب وقت ہے کہ ماضی کے حکمران موجودہ حکمرانوں کو ان کی ’’کارکردگی‘‘ دکھا رہے ہیں۔ یہ کیسا اینٹی کلائمیکس ہے کہ وزیراعظم کو اپنا پہلا بیان بدلنا پڑا اور ساہیوال کے اجتماع میں ماننا پڑا کہ انہوں نے ابھی رپورٹ پڑھی نہیں۔ اب لاعلمی میں منہ چھپائے کہاں چھپتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی 2020ء کی رپورٹ سے تحریک انصاف کا احتساب کا پروجیکٹ قابل احتساب ہوگیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی کی سالانہ رپورٹ اب بہت جامع ہوتی جارہی ہےاور اس کی تیاری میں دنیا کے بڑے عالمی ادارے مختلف پہلوئوں اور میدانوں میں اہم پیمانوں پر بنیادی سوالات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
ان میں ادارہ جاتی جائزہ ہے۔ گورننس کے اشاریے، معاشی لین دین، قوانین و ضوابط، ریاستی اداروں کی کارکردگی، کاروبار کے اصول و ضوابط، قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور جمہوری حکمرانی کی کمزوریوں، نگرانی کے اداروں کی خود مختاری ، حق اظہار، میڈیا کی آزادی، اطلاعات تک رسائی، احتساب کے اداروں، چیکس اینڈ بیلنسز، نظام انصاف کی حالت، غرض پورے نظام کی تمام تر کمزوریوں اور کجیوں کا جائزہ شامل کیا جاتا ہے۔
2020ء کی رپورٹ میں خاص طور پر کورونا کی وباء کے حوالے سے کرپشن کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیسے جہاں کرپشن جتنی زیادہ تھی وہاں کورونا سے نپٹنا بھی اتنا ہی مشکل تھا۔
کرپشن کا معاملہ شخصی ہے نہ سیاسی مخاصمے کا۔ کرپشن پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے اور بڑھتی جاتی ہے۔ عمران خان نے کرپشن کو نہایت سطحی سیاسی نعرہ بازی کے لیے استعمال کیا اور ان کا احتساب سیاسی انتقام کا بڑا ہتھیار بن گیا۔ ان کا یہ زعم‘ کے اوپر ایماندار شخص آجائے تو نیچے کرپشن ختم ہو جاتی ہے‘ بھی بودہ ثابت ہوا۔ خود ان کی صدارت میں تواتر سے کتنے ہی اسکینڈل سامنے آچکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ انہیں بھی ان کی کارکردگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی کی اپروچ ذاتی ہے نہ مخاصمانہ، اس کا رویہ ادارہ جاتی اور ہمہ طرف تنقیدی ہے۔ یہ جاری نظام کے اندر موجود سقم تلاش کرتا ہے اور نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمہ جہت اصلاحات کی طرف راغب کرتا ہے۔
کاش! عمران حکومت خالی نعرے بازی اور سیاسی انتقام میں الجھنے کی بجائے نظام میں اصلاحات پر توجہ مرکوز کرتی لیکن ان کی کھلنڈری اور نعرہ باز ٹیم کے پاس نہ اس کا فہم تھی نہ استطاعت، کسی بھی شعبے میں کسی طرح کی اصلاح میں کہیں کوئی سنجیدگی نظر نہ آئی۔
پولیس اصلاحات ہوئیں، نہ نظام انصاف میں تبدیلی، مقامی حکومتیں بنیں نہ مالیات کی منصفانہ تقسیم ہوسکی، عدلیہ آزاد رہی نہ میڈیا بیباک رہا، نگراں ادارے خود مختار ہوئے نہ موثر بنے، میرٹ آیا نہ تعیناتیاں معروضی پیمانوں پہ ہوئیں، ریاستی نظام میں چلنے والی کارپوریشنز شفاف ہوئیں، نہ ان میں خوفناک بے ضابطگیاں ختم ہوئیں، گورننس اتنی بگڑی کہ معلوم نہیں کہاں جا چھپی، سول سروس کی اصلاحات کی اشک شوئی سے کوئی فرق نہ پڑا۔
پارلیمانی نگرانی چوپٹ اور عوامی نگرانی مفقود ہوئی۔ جو گُل نیب نے کھلائے اس کے بعد اس کے پاس اخلاقی جواز ہی جاتا رہا۔ رہی سہی کسر براڈشیٹ اسکینڈل نے پوری کردی۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کی تحقیق پہ ان صاحب کو لگایا گیا ہے جو احتساب کی تباہی کے عمل میں شامل رہے۔
اب بار کونسلز چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ کچھ تو شرم کریں، لیکن شرم کہاں؟ ہر نئے روز ایک نیا خلجان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ گزشتہ دنوں وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیل پرل کے مقدمہ کے ملزموں کو سپریم کورٹ سے رہائی کا پروانہ ملنے پر عالمی سطح پر پاکستان کے تفتیش، پراسیکیوشن اور عدالتی نظام پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
پوری دنیا میں لے دے ہو رہی ہے اور امریکہ کے نئے سیکرٹری آف اسٹیٹ کا فون ہمارے وزیر خارجہ کو آیا بھی تو اس دھمکی کے ساتھ کہ دہشت گردوں کو سزا دے نہیں سکتے تو ہمارے حوالے کردو اور اگلے مہینے FATF کا وفد بھی زمینی جائزے کے لیے پاکستان آرہا ہے اور یہ طے ہوجائے گا کہ ہم گرے لسٹ میں رہیں گے یا خلاصی ہوگی؟
نظام کی کمزوریوں کا خمیازہ عوام بھگتیں گے لیکن اداروں پہ بات کرنا جرم رہے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔